معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
زمانے سے اگر ڈرتا رہے گا زمانہ تجھ پہ ہنستا ہی رہے گا ہم کو مٹاسکے یہ زمانے میں دم نہیں ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں سینکڑوں غم ہیں زمانہ ساز کو اک ترا غم ہے ترے ناساز کو (اختر ) ہر کہ عاشق گشت رست از وقت و حال غرقہ شد در بحرِ عشقِ ذوالجلال جوعاشقِ حق ہوگیا وہ زمانے کی غلامی سے آزاد ہوگیا اور بحرِ عشقِ ذوالجلال میں غرق ہوگیا یعنی ماسوی اللہ سے اس کی طبیعت مرعوب نہیں ہوتی ؎ سینکڑوں غم ہیں زمانہ ساز کو اک ترا غم ہے ترے ناساز کو ہو آزاد فوراً غمِ دو جہاں سے ترا ذرّۂ غم اگر ہاتھ آئے (اختر ) نورِ حق ظاہر بود اندر ولی نیک بیں باشی اگر اہلِ ولی اولیاء اللہ کے چہروں سے اللہ کانور روشن ہوتاہے مگر یہ نور معاند کو نظر نہیں آتا۔