معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
اللہ کے عاشقوں کی کائنات ہی الگ ہے، ان کے کاروبار عام عقول و افہام سے مافوق ہیں یعنی ہر وقت ان کے باطن کوجوقرب ِپیہم عطا ہورہاہے اس راز سے اہلِ ظاہر بے خبر ہیں۔ گرتنِ خاکی غلیظ و تیرہ ہست صیقلی کن زانکہ صیقل گیرہ ہست اے مخاطب! تو اگر تاریک باطن اور سخت بے حس ہے توقلعی کرالے کہ یہ خاکی تن صیقل قبول کرنے کی صلاحیت بھی رکھتاہے اور قلب کے قلعی گر یعنی اللہ والے ہر دور میں موجود ہیں۔ پس چو آہن گرچہ تیرہ ہیکلی صیقلی کن صیقلی کن صیقلی پس اگر تو مثل لوہے کے سیاہ دل ہے تو جلد اپنے نفس کی اصلاح میں مشغول ہوجا۔ صوفی ابن الوقت باشد اے رفیق نیست فردا گفتن از شرطِ طریق صوفی ہروقت رضائے الٰہی کے تابع ہوتاہے یعنی ہروقت کی آنِ بندگی اور عنوانِ غلامی کو سمجھ کر فوراً طاعات میں تغیر و تبدل کرلیتاہے مثلاً بچہ یا بیوی بیمارہے اور دوالانا ضروری ہے اور نوافل اور ذکر کا بھی یہی وقت تھا تو حق تعالیٰ کی مرضی سمجھ کردوالانے چلاجاوے گا اور جاہل صوفی کو حقوق العباد کی مطلق پروانہیں ہوتی اور یہ معاملات اس قدرنازک ہیں کہ جب تک طویل عمر کسی اللہ والے کی جوتیاں نہ سیدھی کی جاویں جام وسنداں باختن نہیں آتایعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد اور حقوق النفس میں اعتدالی توازن برقرار رکھنے کی فہم نہیں پیدا ہوتی اور شیخ بھی مبصر ومحقق ہونا چاہیے جو خود بھی کسی بزرگ کی اچھی طرح معتدبہ خدمت میں رہاہو۔ صوفی کا مسلک یہ نہیں ہوتا کہ جس کام کو حق تعالیٰ ہم سے آج اور اس وقت چاہتے ہوں اور ہم اس کو کل پر ٹال دیں۔ اس شعر میں بعض سطحی لوگ ابن الوقت سے مراد رفتارِزمانہ کی غلامی لیتے ہیں حاشا و کلّا اس جہل سے اس شعر کاکیا واسطہ۔ زمانے سے بے خوف ہوکر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا جذبہ ایمان کی ضمانت ہوتاہے ؎