معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
در تحُّیر ماندہ اصحابِ رسول کز چہ می نالد ستوں با عرض و طول اس آوازِ گریہ سے اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تعجب میں پڑگئے کہ یہ ستون اپنے پورے حجم طول وعرض سے کس طرح رورہاہے۔ گفت پیغمبر چہ خواہی اے ستوں گفت جانم از فراقت گشت خوں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایاکہ اے ستون! توکیاچاہتاہے؟ا س نے کہا: یارسول اللہ!آپ کی جدائی کے صدمے سے میری جان خون ہورہی ہے۔ از فراقِ تو مرا چوں سوخت جاں چوں ننالم بے تو اے جانِ جہاں آپ کی جدائی سے میری جان اندر اندر جل رہی ہے پھر اس آتشِ غم کے ہوتے ہوئے آپ کے فراق سے میں کیوں نہ آہ وفغاں کروں کہ یارسول اللہ! آپ ہی تو جانِ کائنات ہیں۔ مسندت من بودم از من تاختی بر سرِ منبر تو مسند ساختی میں آپ کا مسند تھاآپ مجھ سے الگ ہوگئے اور آپ نے میری جگہ دوسرامنبر پسند فرمالیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ کہ اے مبارک ستون! اگر تو چاہتاہے توتیرے لیے دعاکردوں کہ تو سر سبز وثمرآوردرخت ہوجاوے اور تیرے پھلوں سے ہرشرقی وغربی مستفید ہو۔ یاتوعالمِ آخرت میں کچھ چاہتاہے اور توہمیشہ کے لیے تروتازہ ہوناچاہتاہے۔ اسطوانۂ حنانہ نے کہا:یارسول اللہ! میں تو دائمی اور ابدی نعمت چاہتاہوں۔ گفت آں خواہم کہ دائم شد بقاش بشنو اے غافل کم از چوبے مباش