معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
گفت اے شہہ مرگِ من از بودِ اوست خود سیاہ ایں روز من از دودِ اوست مچھر نے کہا: اے شاہ! میری موت ہواہی کے وجود سے ہے،اس کے دھواں سے تو میرادن سیاہ ہوجاتاہے۔ او چو آمد من کجا یابم قرار کو بر آرد از نہادِ من دمار ہواجب آتی ہے تو مجھے قرارنہ رہا کیوں کہ وہ مجھے ہلاک کرنے کے لیے میری جگہ سے مجھ کو اکھاڑپھینکتی ہے۔ ہمچنیں جو یائے درگاہِ خدا چوں خدا آید شود جویندہ لا اب مولاناسالکین کو ارشاد وتعلیم فرماتے ہیں کہ اسی طرح جو خدا کا طالب ہوتا ہے تو جب خدا کا قرب عطا ہوگا تو حق تعالیٰ کی آمد اس کے رفت کا سبب بنے گی یعنی عطائے قرب کے لیے عبدیت اور فنائیت لازم ہے اور یہی مقرب باللہ ہونے کی علامت ہے پس اگر نفس زندہ ہے اور تکبر سے پُرہے تواس انانیت کے ساتھ قربِ خدامحال ہے۔ اس اناکو فنا کرناہوگا۔ گرچہ آں وصلت بقا اندر بقاست لیک زا ول آں بقا اندر فناست اگرچہ قربِ خداوندی کے حصول میں بقا ہی بقاہے لیکن اس بقا سے پہلے فناہوناضروری ہے۔اور فنائیت سے مراد یہ ہے کہ اپنی مرضیات کو مرضیاتِ الٰہیہ کاتابع اور غلام بنادے اور غلامی کی صحت اس کے بغیر لغۃً بھی تو درست نہیں۔ وہ غلام ہی کیساجومالک کی مرضی پراپنی مرضی کو غالب رکھے۔ فائدہ:اس واقعہ میں یہ سبق ہے کہ افنائے نفوس کے بعد ہی قرب اور ولایت سے