معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
ہم حق تعالیٰ ہی سے رجوع کریں،ان ہی کی طرف بھاگیں ۔ان ہی کی چوکھٹ پر پیشانی رکھیں اورگریہ وزاری، آہ وفغاں کرکے ان ہی سے عافیت مانگیں اوراپنے گناہوں سے استغفارکریں اورحق تعالیٰ کے علاوہ کسی کوبھی اپناچارہ گر اور جائے پناہ نہ سمجھیں اور اس کے باوجودبھی وہ جس حال میں رکھیں راضی رہیں اور اَلْحَمْدُلِلہِ عَلیٰ کُلِّ حَالٍ کہیں۔ ہماری ناراضگی اوربے صبری سے مصیبت توٹلے گی نہیں البتہ ایمان ہاتھ سے جاتا رہےگا۔دنیاکے ساتھ آخرت بھی جاوے گی۔ دعاکی قبولیت میں تاخیرہوکبھی نہ گھبرائے،امیدوار رہے۔ مایوسی کوکفر سمجھے۔ سیدنایعقوب علیہ السلام کی دعابیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کی بازیابی کے بارے میں چالیس سال بعد قبول ہوئی، وہ حاکم ہیں اورحکیم بھی ہیں، وہی جانتے ہیں کہ غم کی آگ سے ایمان اوراخلاص کے نورمیں کیا ترقی ہورہی ہے اورجنت میں اس صبرکاکیادرجہ ملنے والاہے جومجاہدۂ اختیاری سے ہرگزنہ مل سکتاتھا۔ پردیس کے دن کٹ ہی جاتے ہیں۔ انبیاء علیہم السلام اورحضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے مصائب کویاد کرے۔اس سے تقویت ہوگی۔اللہ والوں کی صحبت میں حاضری دے اوران سے اپنے حالات کہہ کرمشورہ لیتارہے اوراللہ تعالیٰ سے اپنے ضعف وعجز کا اقرارکرتے ہوئے عافیتِ دارین طلب کرتارہے اوران کے ارحم الراحمین ہونے کی صفت کواورحکیم ہونے کی صفت کوبھی خوب سوچے،یہ سب باتیں بزرگوں کی صحبت کی برکت سے خوب سمجھ میں آجاویں گی۔ یہاں اسی مختصرپراکتفاء کیاجاتاہے۔ ایک بات اور یاد رہے کہ چھوٹی مصیبت بڑی مصیبت سے نجات کا ذریعہ ہواکرتی ہے بس یوں کہے کہ اے اللہ! شکرہے کہ اس سے بڑی مصیبت نہ آئی اوراے اللہ! ہم ضعیف ہیں، اس کوبھی اپنی رحمت سے نعمتِ عافیت سے تبدیل فرمادیجیے۔ ایک بزرگ گھرسے صبح کونکلے، سر میں چوٹ لگ گئی ،چوٹ کی تکلیف سے لیٹ گئے اورکہا: اَلْحَمْدُلِلہِ عَلیٰ کُلِّ حَالٍ اللہ حکیم ہے، ان کے ہرکام میں بندے کے لیے خیروحکمت پوشیدہ ہے۔ ملازم نے اعتراض کیاکہ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اس چوٹ میں آپ کا کیا نفع ہوسکتاہے؟