معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
اورجب ماں اپنے چھوٹے بچے کوطمانچہ مارتی ہے تووہ ماں ہی کی طرف بھاگ کراسی پرگرکراسے مضبوط پکڑکرچلّاتاہے۔ احقر نے بارہا یہ منظر دیکھا ہے کہ ماں نے تین چارسال کے بچے کوخوب مارا اور گھرسے نکالنا چاہااور وہ چلّاتاروتاہواماں کے پیروں میں لپٹاجارہاتھا اے اللہ! اپنی رحمت سے اختر(رحمہ اللہ تعالیٰ رحمۃً واسعۃً)کواپنی ذاتِ پاک کے ساتھ اس سے بھی بڑھ کرتعلق عطا فرما اور تمام مسلمانانِ عالم کوبھی یہ دولت عطافرما۔آمین۔ از کسے یاری نخواہد غیرِ او اوست جملہ شرِّ او و خیرِ او اور چھوٹا بچہ ماں کے علاوہ کسی سے مدد نہیں چاہتا حتیٰ کہ باپ کی طرف بھی توجہ نہیں کرتا اور اپنی ہی ماں کوتمام خیر اور شر کا منتہا اور سرچشمہ سمجھتاہے۔ خاطرِ تو ہم ز ما در خیر و شر التفاتش نیست جاہائے دگر اے موسیٰ!آپ کا خیال اورآپ کاتعلق ہمارے ساتھ خیر وشر میں اسی طرح ہے کہ ہمارے علاوہ کسی دوسری جگہ آپ کی توجہ نہیں جاتی۔ غیرِ من پیشت چو سنگست و کلوخ گر صبیّ و گر جوان و گر شیوخ اے موسیٰ! آپ کے سامنے ہماراغیر،خیروشراورنفع وضرر میں مثل ڈھیلے اورپتھرکے ہے یعنی مطلق بے اثرہے خواہ وہ غیربچہ ہویاجوان ہویابوڑھاہو۔ فائدہ:اس حکایت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کامقامِ توحیدبیان فرماکرمولانا نے یہ نصیحت فرمائی ہے کہ ہم بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپناتعلق اور اعتقادایسی سطح پرلانے کی دعااورسعی وتدبیرکریں جیسے ایک طفلِ صغیر(چھوٹابچہ) ماں پرجس قدر اعتماد کرتاہے اسی طرح حق تعالیٰ ہم کوجس حال میں رکھیں تکلیف یا آرام، صحت یا بیماری، تنگدستی یافراخدستی ہرخوش اور ناخوش،شیریں اورتلخ،موافقِ طبع اورناموافقِ طبع کل حالات میں