معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
ہے۔ آنکھوں کی بصارت اور قلب کی بصیرت میں بڑا فرق ہے ۔ ہماری ظاہری بصارت باطنی بصیرت کے تابع ہوتی ہے ، پس اگرقلبی بصیرت صحیح ہے توبصارت بھی صحیح دیکھتی ہے اوراگرقلب بیمارہے کفریافسق کی ظلمت سے توظاہری بصارت بھی صحیح کام نہیں کرتی اورخلافِ حقیقت بصیرت کے سبب خلافِ حقیقت بصارت میں مبتلا ہوناامرِلابدی ہوتاہے۔ اس کی دنیا میں مثال موجودہے۔ ایک شخص اللہ کاطالب ہے وہ اللہ والوں کی جوتیاں سرپررکھنے کواپنی سعادت اور فخر محسوس کرتاہے۔ دوسراصرف دنیاکاطالب ہے اورخداسے روگرداں ہے، یہ دنیاداروں کی خوشامد اوران کی چمچہ گیری میں فخر محسوس کرتاہے تودونوں کی بصیرتِ قلبی کے فیصلوں نے بصارت کوتبدیل اورمتضادکردیا۔ اس طرح دورِ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں دیکھیے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بصیرتِ صحیحہ سے آپ کی بصارت نے حضورِاقدس صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا۔ فرماتے ہیں کہ مجھے توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاچہرۂ مبارک ایسا چمکدار اور روشن معلوم ہوتاہے کہ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک میں آفتاب چل رہاہے: کَأَنَّ الشَّمْسَ تَجْرِیْ فِیْ وَجْہِ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؎ اورابوجہل کی بصیرتِ فاسدہ غیر صحیحہ نے اس کی بصارت کو کس درجہ اندھا کردیا کہ اس کو آئینۂ حق میں حق نظر نہ آیا۔ بلکہ اپنی ہی بدصورتی نظرآئی۔ جیساکہ ایک حبشی کی حکایت مشہور ہے کہ کہیں سفرکررہاتھا، راستے میں ایک آئینہ کسی کاگراپڑامل گیا اس نے اٹھاکردیکھاتواس کواپنی ہی شکل نظرآئی، کہنے لگاکہ اگر توایسا بھدّا،کالااورموٹے ہونٹ والانہ ہوتا تو تجھے اس لاپروائی سے کوئی یہاں جنگل میں کیوں ڈال جاتا۔ اس بے وقوف کویہ حقیقت نہ معلوم ہوئی کہ یہ آئینہ میری ہی صورت کی عکاسی کررہاہے۔ تیسری نصیحت یہ ہے کہ اولیائے کرام کو اہلِ ظاہراپنی نگاہِ محروم وخالی سے دیکھتے ہیں اسی لیے وہ حضرات ان کو محروم اورخالی نظرآتے ہیں۔ ایک دفعہ حضرت حاجی امداداللہ صاحب مہاجرمکی رحمۃ اللہ علیہ سے ایک محروم شخص کورِباطن نے کہاکہ ------------------------------