معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
دیدۂ مجنوں اگر بودے ترا ہر دو عالم بے خطر بودے ترا اے خلیفہ ! اگرمجنون کی آنکھیں تجھے بھی حاصل ہوجاویں تودونوں جہان سے توبھی بے خیال ہوجاتا۔ با خودی تو لیک مجنوں بے خود ست در طریقِ عشق بیداری بدست اے خلیفہ! توخودی میں مبتلاہے لیکن مجنون کو میرے عشق نے بے خودی عطا کی ہے اور راہِعشق میں بے ہوشی مفیداورہوش مضرہوتاہے۔ یعنی محبوب سے باہوش و باخبر ہونا اور غیروں سے بے ہوش اوربے خبرہوناہی تکمیلِ عشق کی علامت ہوتی ہے۔ فائدہ : اس حکایت میں حسب ذیل نصائح ہیں: حضرت حاجی امداداللہ صاحب مہاجرمکی رحمۃ اللہ علیہ، اللہ تعالیٰ سے عرض کرتے ہیں ؎ تو کر بے خبر ساری خبروں سے مجھ کو الٰہی رہوں ا ِک خبر دار تیرا اس کا مطلب یہ نہیں کہ بال بچوں سے اوراقرباواحباب سے بھی بے خبر ہوجاویں مطلب یہ ہے کہ ان کی خبرگیری بھی اللہ ہی کے لیے ہوان سے بدلہ لینے یا بدلہ دینے کی نیت نہ ہو، اس اصول کے پیشِ نظراس نیت واخلاص کی برکت سے رابطہ بالمخلوق بھی رابطۂ خالق کا جزء بن جاتاہے۔ دوسری نصیحت یہ ہے کہ اللہ ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرات صحابہ رضی اللہ عنہم اوراولیائے کرام اوربیت اللہ اوربیت الرسول صلی اللہ علیہ وسلم ، حجرِاسود، صفاومروہ، منیٰ، عرفات و مزدلفہ۔ تمام مساجداورومساجدکے خدام اور سب پرنگاہِ مجنون اورنگاہ احترامِ عشق ڈالنے والی نظرکوکسی اہلِ نظرکی صحبت سے بھیک مانگ لو۔ کیوں کہ بغیراللہ والوں کی نظرِعنایت اوربغیران کی صحبت کے فیض کے یہ نظر ملتی نہیں