معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
آرہے تھے اب بحکمتِ خداوندی وہ آفتاب اُفقِ استتار میں غروب ہوگیا یعنی اب بجائے تجلّی کے استتار ہوگیا،جیساکہ عارفین کو دونوں حالتیں پیش آتی ہیں اور بعض مصالح اس میں تجلّی سے بھی زیادہ ہوا کرتی ہیں۔ پس جب روزنِ قلب کی محاذات سے آفتابِ فیض زیرِ اُفق جاگراتوکتابِ ھٰذا ختم ہوگئی۔’’ختم شد واللہ اعلم بالصواب‘‘اور اللہ ہی کو خوب معلوم ہے کہ صواب اور مصلحت اور حکمت کس وقت کس چیز میں کیاہے؟ پس جب وہی جانتے ہیں اورحکمت کے موافق کرتے بھی ہیں،اوراس وقت انھوں نے ایسا کیا پس یقینا اس میں حکمت ہے۔اس لیے میں بھی اتّباع اس حال کا کرکے بتکلّف کلام کرنا نہیں چاہتااور مثنوی کو ختم کیے دیتاہوں۔ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقام پر فائدے کے تحت ایک تنبیہ تحریر فرمائی ہے وہ یہ کہ عارف کو بحکمِ وقت کلام کرناچاہیے، جب طبیعت اپنی اور سامعین کی حاضرہواور علوم ومَعارف کی آمد ہواور اس میں اعتدال ہو کہ نہ بیان میں تکلّف ہو اور نہ اتنا غلبہ ہوکہ ضبط سے خارج ہونے کا اندیشہ ہو اس وقت افادۂ خلق میں مشغول ہواور اسی وقت حضرت رحمۃ اللہ علیہ پر یہ شعر وارد ہوا ؎ گر بگوید بگو بگوئی و بجوش ور بگوید مگو مگوئی و خموش مولانارومی رحمۃ اللہ علیہ نے پیشین گوئی فرمائی تھی کہ میرے بعدایک نورِجاں آئے گاجواس مثنوی کاتکملہ کرے گاجوان دوشعر میں مذکورہے ؎ ہست باقی شرحِ ایں لیکن دروں بستہ شد دیگر نمی آید بروں باقی ایں گفتہ آید بے زباں در دلِ آنکس کہ دارد نورِ جاں چناں چہ اس نورِ جاں کا مصداق حق تعالیٰ نے مُفتی الٰہی بخش صاحب کاندھلوی قدّس سرّہٗ