معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
یعنی کسی اللہ والے کی صحبت میں رہ کر اس کی نازبرداری سہہ لے تاکہ ۔ گر تو سنگِ خارہ و مر مر بوی چو بصاحبدل رسی گوہر شوی اگرتوپتھرکی طرح بے حس ہے یعنی خشیت وخوفِ آخرت سے محروم ہے توجاکسی اہلِ دل(اللہ والے) سے تعلق قائم کرکہ اس کی صحبت سے تو موتی بن جاوے گا۔ عیب کم گو بندۂ اللہ را متّہم کم کن بدزدی شاہ را (فارسی میں کم مطلق نفی کے لیے ہے، اردووالاکم مراد نہیں ہوتا) اللہ والوں کے متعلق عیب گوئی سے باز آجاؤاور شاہ کو چوری کاالزام مت لگاؤکہ اسے چوری کی کیا ضرورت ہوسکتی ہے۔ فائدہ : اللہ والے اپنے باطن میں بڑی دولت رکھتے ہیں، ان کے سامنے ہفت اقلیم بھی ہیچ ہے کیوں کہ خالقِ ہفت اقلیم سے ان کے دل کا رابطہ قائم ہوچکاہے۔ پھر انھیں حقیر مت سمجھواوراپنے روزوشب کوان کے روز وشب پرقیاس مت کرواور مثل اس چوہے کے اپنے دنیاوی ٹھاٹ باٹ یا علمی وعملی جاہ سے دھوکا نہ کھاؤ، اگر تم کسی طرح بھی ان پربرتری کا احساس رکھوگے تومحروم اور ذلیل ہوگے، بالآخر ان ہی کی پیٹھ پربیٹھ کرہی راستہ پارکرناپڑے گااوراسی چوہے کی طرح توبہ کرنی ہوگی، اس لیے روزِ اول ہی اپنے دماغ سے فانی دنیا کی جاہ وعزت اورمال ودولت اور علمِ ظاہری اور عملِ بے روح کا پندار احمقانہ نکال کرکسی اللہ والے سے نیاز مندانہ تعلق کرلو،چند دن کے بعد اس حقیقت سے تم خود آگاہ ہوجاؤگے اورقسمیں اٹھاؤگے کہ ؎ تونے مجھ کو کیاسے کیا شوقِ فراواں کردیا پہلے جاں پھر جانِ جاں پھر جانِ جاناں کردیا اوراپنے شیخ کے متعلق تم بھی یہی کہوگے جوحضرت مجذوب رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ؎