معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
اونٹ نے کہا:اچھامیں دیکھتاہوں کہ پانی کس قدر ہے آیاتم ڈوب سکوگے یا نہیں، ایک قدم دریامیں رکھ کرکہا:اے موش اوراے میرے شیخ وراہبر!صرف گھٹنے تک پانی ہے یہاں تک توراہبری کیجیے۔ چوہے نے کہا:جہاں پانی تمہارے گھٹنے تک ہے وہاں تومیرے سرپرکئی گناپانی اونچا ہوگامیرے اورتمہارے زانومیں فرق ہے۔ اونٹ نے کہا:اب گستاخی نہ کرو سیدھے سیدھے پانی میں آکر راہبری کروآپ کو تو میری راہبری پر بڑانازو فخر تھااور بڑے بڑے اعزاز حاصل تھے۔ اے احمق! میں نے تیرے پیچھے اس لیے اقتدا کی تھی تاکہ تیری حماقت اور زیادہ ہوجاوے ۔ چوہے نے کہا: پانی میں اترنا میری ہلاکت ہے۔ میری توبہ ہے، آپ معاف کردیجیے آیندہ آپ کا مقتدا اور شیخ بننے کاکبھی خیال بھی نہ گزرے گا ؎ گفت توبہ کردم از بہرِ خدا بگزرا زیں آبِ مہلک مرمرا چوہے نے کہا: میں نے اللہ کے لیے توبہ کی، میری جان اس خطرناک پانی سے چھڑالیجیے۔ اونٹ کو چوہے کی توبہ اور ندامت پر رحم آیااوراس نے کہا:اچھاآمیرے کوہان پر بیٹھ جااور سوتیرے جیسے اور چوہے بھی میری پیٹھ پر بیٹھ کر ایسے پانی سے بحفاظت گزر سکتے ہیں۔ تو رعیت باش چوں سلطاں نۂ خود مراں چو مردِ کشتیباں نۂ تو رعایابن کر رہ اگر تجھ کو خدانے سلطان نہیں بنایااورکشتی مت چلا جب تجھے کشتیبانی(ملاحی) نہیں آتی۔ خدمتِ اکسیر کن مس وار تو جورمی کش اے دل از دلدار تو اور مثلِ تانبا کے تو اہلِ کیمیا کی خدمت کرکہ وہ اپنے فیضِ صحبت سے تجھے سونا بنادے