معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
اے بے حس کاہل!اُٹھ اور اپنی پرانی بری عاتوں کی اصلاح کے لیے تبر (برچھی) اٹھا اور مردانہ وار حملہ کر اور مثل حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس دروازۂ خیبرکواکھاڑدے۔ فائدہ : اس قصے میں مولانا کا مقصود اس نصیحت کو بیان کرناہے کہ سالک اور طالبِ حق کواپنی بری عادت اور گناہ کی عادت کی اصلاح میں وعدۂ فردا کبھی نہ کرنا چاہیے۔یعنی یہ نہ کہے کہ کل کروں گا اور جب کل آوے توپھریہی کہے کہ کل کرلوں گا۔ اس طرح شیطان اس کل یعنی وعدۂ فردا کوموت تک کھینچ لےجاوے گااور بے اصلاح ذلیل وخوار قبر میں ڈال کر چین وخوشی منائے گا۔ کیوں کہ جس طرح اس واقعہ میں خاردار درخت کولگانے والادیر کرنے سے اکھاڑنہ سکا اسی طرح تم اصلاح میں جتنی دیر کروگے، اسی قدربری عادتیں اپنی جڑیں مضبوط کرلیں گی اور تم مرورِایام ولیالی سے(دن رات کے گزرنے سے)بوڑھے اور کمزورہی ہوتے جاؤگے جس کے سبب ان برائیوں کے درختوں کو اکھاڑنایعنی ان کی اصلاح مشکل ہوجاوے گی،اس لیے بلاتاخیر اٹھواور ہمّت کا تبراٹھاؤاور مثلِ حضرت علی رضی اللہ عنہ برائیوں کے دروازۂ خیبر کواکھاڑ پھینکو اور جس طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کوہمت کا فیض بارگاہِ رسالت سے عطا ہواتھا، توبھی بارگاہِ رسالت کے غلاموں سے (اللہ والوں سے) رشتہ جوڑلے اور ان کی صحبت سے یہ فیضِ مردانہ حاصل کرلے۔ حضرتِ اقدس مولاناتھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اب بھی کوئی کرسی خالی نہیں، قطب،غوث اور ابدالوں کی سب کرسیاں پُرہیں۔ ہنوز آں ابرِ رحمت دُرفِشاں است خم و خمخانہ با مہر و نشان است یہی اولیائے کرام جو تمہارے سامنے زندگی میں حقیر، خستہ حال اور بے قدرے معلوم ہوتے ہیں ایک صدی گزرنے کے بعد تاریخ میں یہی لوگ جنیدرحمۃ اللہ علیہ، رومی رحمۃ اللہ علیہ، عطار رحمۃ اللہ علیہ وشبلی رحمۃ اللہ علیہ معلوم ہوں گے۔یہ خیال احمقانہ ہے کہ اب پہلے جیسے بزرگ کہاں ملتے ہیں۔ یہ شیطانی خیال ہے جس سے ان کی صحبت کے فیض سے محروم رکھناچاہتاہے۔کیا جسمانی بیماریوں کے سلسلے میں کوئی یہ کہہ کر علاج سے محروم