معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
اے شخص! اکثر اوقات ظالم شکاری ان ہی پروں کے لیے ہر طرف جال بچھاتاہے ۔ چوں ندارم روز ضبطِ خویشتن زیں قضا و زیں بلا و زیں فتن جب میں دن کو ان قضاؤں اور بلاؤں اور فتنوں سے اپنے کو محفوظ رکھنے پر قادر نہیں ہوں تو آں بہہ آمد کہ شوم زشت و کریہ تا بوم ایمن در ایں کہسا ر و تیہ ( تیہہ یعنی میدان۔بال یعنی بازو)۔اس سے یہ بہتر ہے کہ میں اپنے پروں کو دور کردوں اور اپنی صورت کو مکروہ بنالوں تاکہ پہاڑوں اور میدانوں میں بے فکر ہوجاؤں۔ نزدِ من جاں بہتر از بال و پرست جاں بماند باقی و تن ابترست میرے نزدیک جان کی حفاظت بال و پر کی حفاظت سے زیادہ ضروری اور اہم ہے ۔ جان تو محفوظ رہے جسم کی ابتری کا جان کے مقابلے میں کیاغم۔ فائدہ : اللہ والے اسی لیے اپنے کو شہرت اور جاہ سے دور رکھتے ہیں جیسا کہ مولانا نےدوسرے مقام پر فرمایاہے: خویش را رنجور ساز و زار زار تا ترا بیروں کند از اِشتہار اپنے کو بے نام ونشاں اور عاجز و مسکین بناکر رکھوتاکہ شہرت سے یہ حالت تم کو دور رکھے۔کیوں کہ شہرت سے گوشۂ عافیت چھن جاتاہے اور شہرت بہت سی بلائیں اپنے ساتھ لاتی ہے۔ البتہ اگر خودحق تعالیٰ کسی کامل کو مشہور فرمادیں تو پھر ان ہی کی حفاظت بھی سایہ فگن ہوتی ہے، مذموم شہرت وہ ہے جو خود کوشش کرکے حاصل کی جاتی ہے۔