معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
ان صحابی رضی اللہ عنہ نے کہا: اے میری بیماری اور بخار اور رنج! اوراے درد اور بیداریٔ شب!تجھے مبارک ہو کہ تو ہی سبب ہے اس وقت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کو میرے پاس تشریف لائے۔ اس کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت سے فارغ ہوئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمھیں کچھ یاد ہے کہ تم نے ایک بار حالتِ صحت میں کیا دعا کی تھی۔ انہوں نے کہا: مجھے تو یاد نہیں آتاکہ کیا دعاکی تھی۔اس کے تھوڑے ہی وقفے بعدحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے ان کو دعا یاد آگئی اور عرض کیا:یارسول اللہ! مجھے وہ دعا یاد آگئی۔ وہ دعا یہ تھی کہ میں نے اپنے اعمال کی کوتاہیوں اور خطاؤں کے پیشِ نظر یہ دعا کی تھی اے اللہ! من ہمی گویم کہ یا رب آں عذاب ہم دریں عالم براں بر من شتاب میں دعا میں کہا کرتاتھا کہ اے اللہ! وہ عذاب جو آخرت میں آپ دیں گے وہ اسی عالم میں یعنی دنیا ہی میں مجھ پر جلد دے دیجیے۔ تا در آں عالم فراغت باشدم در چنیں درخواست تا دم می زدم تاکہ عالمِ آخرت کے عذاب سے فارغ ہوجاؤں اور یہ درخواست اب تک میں کرتارہا ۔ اینچنیں رنجورئے پیدام شد جانِ من از رنج بے آرام شد یہاں تک کہ یہ نوبت آگئی کہ مجھ کو ایسی شدید بیماری نے گھیرلیا اور میری جان اس تکلیف سے بے آرام ہوگئی۔ ماندہ ام از ذکر و از اورا و خود بے خبر گشتم ز خویش و نیک و بد