معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
اگر تمہارے چشموں کے پانی گہرائی میں چلے جاویں تو کون قدرت رکھتاہے کہ وہ اس پانی کو اوپر لاسکے۔ یہ میری ہی قدرت ہے کہ ۔ آب را در غو رہا پنہاں کنم چشمہارا خشک و خشکستاں کنم میں پانی کو زمین کی گہرائی میں مخفی کردیتاہوں اور چشموں کو خشک کردیتاہوں جس سے پانی کا قحط ہوجاتاہے۔ پھر میرے سوا کون ہے جو دوبارہ پانی چشموں میں لاسکتاہے ؎ آب را در چشمہ کہ آرد دگر اس آیت کو سن کر ایک فلسفی منطقی نے کہا کہ میں لاسکتاہوں۔ بس رات کو جب سویاتو شب بخفت و دید او یک شیر مرد زد طپانچہ ہر دو چشمش کور کرد وہ رات سوگیا اور دیکھا ایک شیر مرد کو اور اس نے طمانچہ اس کو مارا جس سے دونوں آنکھیں اس کی اندھی ہوگئیں اور اس نے خواب ہی میں کہا ؎ گفت زیں در چشمۂ چشم اے شقی با تبر نورے بیا رار صادقی اس شیرِِ مرد نے کہا: اے بد بخت ! اپنی آنکھ کے دونوں چشموں سے اس نور کو واپس لا۔ اگرتواپنے دعویٰ میں صادق ہے جب خواب سے اٹھا تو اس نے اپنی دونوں آنکھوں کو بے نور پایا اور اندھا ہوگیا۔ گر بنالیدے و مُسْتغفِر شدے نورِ رفتہ از کرم ظاہر شدے اگر یہ بد بخت نالہ کرتااور استغفار میں مشغول ہوجاتا تو حق تعالیٰ کی رحمت و مہربانی سے اس کو دوبارہ آنکھوں کی روشنی عطاہوجاتی۔ لیک استغفار ہم در دست نیست ذوقِ توبہ نُقلِ ہر سرمست نیست