معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
طوطی نے کہا کہ اس طوطی نے مجھے اپنے عمل سے خود مردہ بناکر یہ سبق دیا تھا کہ تیری آزادی اور رہائی کی یہی صورت ہے کہ تو مردہ ہوجا۔ اس کے بعد طوطی نے سلام کیا اور تاجر کو الفراق کہا۔ الوداع اے خواجہ رفتم در وطن ہم شوی آزاد روزے ہمچو من طوطی نے کہا: اے خواجہ! میں نے اپنے وطن کا رخ کیا، اب تجھ سے رخصت ہوتی ہوں اور خدا کرے توبھی نفس کی زنجیر اور قید وبند سے آزاد ہوجاوے میری طرح(تاکہ توبھی باغِ قربِ الٰہی میں سیر کرے) ؎ خواجہ گفتش فی امان اللہ برو مر مراا کنوں نمودی راہِ نو تاجر نے کہا: فی امان اللہ اے طوطی ! جااپنے وطن مگر تونے مجھے بھی آزادی کی راہِ انوکھی دکھادی۔ جانِ من کمتر زِ طوطی کے بود جاں چنیں باید کہ نیکو پے بُود تاجر نے کہا کہ میری جان کیا طوطی سے بھی کمتر ہے کہ دنیا کے قید خانے اور خواہشاتِ نفس کی غلامی کی زنجیرمیں گرفتاررہے اور اللہ تعالیٰ کے باغِ قرب سے محروم۔ پس جان تو ایسی ہی ہونی چاہیے جو اپنے اصل چمن کی طرف اڑجائے اور قید سے رہاہوجائے۔ مولاناکو اس واقعہ سے یہ نصیحت فرمانی مقصود ہے کہ قفس سے اس طوطی کو رہائی تقریر اور بلند آوازی اور دعویٔ انانیت سے نہیں ملی بلکہ اپنے کو مٹانے اور فنا کرنے سے ملی۔ پس اسی طرح جو طالب طائرِ روح کو نفس وشیطان کے قفس سے آزاد کرانا چاہے اس کو چاہیے کہ فنا ہونا سیکھے اور طریقۂ فنائیت فانی فی اللہ سے سیکھو، کیوں کہ جو خود قیدی ہو وہ دوسرے قیدی کو رہا نہیں کرسکتا اور اللہ والے نفس کے قید وبندسے آزاد ہوگئے ہیں۔ پس ان ہی کی صحبت سے دوسرے قیدی رہائی پاسکتے ہیں۔