معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
کی اس گستاخی کے سبب آپ کے نفس کو ناگواری ہوئی اورآپ نے تلوار کو میان میں کیا اور اس کے سینے سے علیحدہ ہوگئے اور اس کے قتل سے ہاتھ روک لیا۔ اس کافر نے کہا کہ اے امیر المؤمنین!یہ کیا بات ہے کہ میری تھوکنے والی گستاخی کے بعد تو آپ کو فورًا مجھے قتل کرنا چاہیے تھا اور آپ مجھ پر ہر طرح غالب تھے ، وہ کونسی بات تھی جو آپ کو قتل سے مانع ہوئی؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ میں تجھ کو اے کافر! صرف خداکی رضا جوئی کے لیے قتل کرنے کا ارداہ کررہاتھا کہ تونے میرے چہرے پر تھوک کر میرے نفس کو غضب ناک کردیا ، اب اگر میں تجھے قتل کرتاتو یہ فعل میرے نفس کے غضب اور غصے سے ہوتا اور اخلاص سے نہ ہوتا اور اللہ تعالیٰ اخلاص کے بغیرکسی عمل کو قبول نہیں فرماتے۔ پس تیرا قتل کرنامجھے منافی ٔ اخلاص معلوم ہوا۔ اس لیے میں اس فعل سے باز رہا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس بات کو سن کر وہ کافر محوِ حیرت ہوگیا اور اس کے دل میں ایمان کی شمع روشن ہوگئی اور اس نے کہا کہ اے امیر المؤمنین! میں ایسے دین کو قبول کرنا اپنی سعادت سمجھتاہوں جس میں اخلاص کی ایسی تعلیم دی جاتی ہے۔ اور بے شک یہ دین سچا ہے۔ اب مولانا کی زبان سے سنیے، فرماتے ہیں: از علی آموز اخلاصِ عمل شیرِِِ حق را داں مطہّر از دغل اے مخاطب ! اخلاصِ عمل کا سبق حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سیکھ اور شیرِ حق کو دغل یعنی مکر وحیلہ سے پاک سمجھ۔ در غزا بر پہلوانے دست یافت زود شمشیرے بر آورد و شتافت حالتِ جہاد میں ایک پہلوان کافر پر غالب ہوئے اور شمشیر کو جلد میان سے نکالا۔