معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
ان کیڑوں پر باپ جیسی شفقت عطاکی یہاں تک کہ اگر کوئی کیڑا جسم سے نکل کر دور ہوتا تو انھیں ایسا محسوس ہوتاکہ میری اولاد مجھ سے جداہوگئی۔ دادہ من ایوب را مہرِ پدر بہرِ مہمانیٔ کرماں بے ضرر میں نے ایوب علیہ السلام کو باپ کی طرح مہربانی دی تھی۔ کیڑوں کی مہمانی کے لیے بدوں ضرر پہنچانے کے۔ مادراں را مہر من آ موختم چوں بود شمعے کہ من افروختم ماؤں کو محبت میں نے ہی سکھائی ہے وہ کیسی شمع ہوگی، جس کو میں نے روشن کیاہو۔ غرض اس بچے پر میں نے صدہا عنایات اور صدہاعلاقے کرم کے کیے تاکہ وہ میرا لطف وکرم بے واسطۂ اسباب دیکھ لے اور تاکہ وہ اسباب سے کش مکش میں مبتلانہ ہوکیوں کہ اسباب سے مسبب کبھی متخلف بھی ہوجاتاہے اور تاکہ اس بچے کی ہر استعانت مجھ سے ہی ہو کیوں کہ اسباب کے حجابات اس کے سامنے نہ تھے۔ یعنی بدون اسباب پرورش کا مقتضیٰ یہی ہے کہ وہ کسی اور پر نظر نہ کرے۔ تاکہ خود ہماری طرف اس کو عذر نہ رہے گمراہ ہونے میں کہ میں اسباب پر نظر کرنے کے سبب آپ کے انعامات وآیات کی طرف متوجہ نہ ہوسکا اور ہریارِ بد سے اس کو شکوہ نہ ہوکہ فلاں نے مجھ کو گمراہ کردیا سواب افاضۂ نعم بلااسبابِ عادیہ میں اس کی گنجایش نہ رہی۔ مگر اے عزرائیل! اس بچے نے میرا کیا شکر اداکیا؟یہی بچہ نمرود ہوگیا اور میرے خلیل ابراہیم (علیہ السلام) کو جلانے والا(سوزندۂ خلیل) نکلا۔ یعنی اس کا ارادہ یہی تھا مگر حق تعالیٰ نے اپنے خلیل پر آتشِ نمرود کو گلزارِ امن بنادیا۔ آگے مولانا فرماتے ہیں کہ یہ نفس نہایت ہی خطرناک دشمن ہے، اس سے پناہ مانگتے رہو۔ دوسروں کے لیے تو ماں باپ کی پرورش حجاب بن جاتی ہے مگر اس نالائق نے بلاواسطہ اپنی جیب میں بہت سے موتی ہم سے پائے تھے۔