معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
میں مجبور تھے۔ آپ کے قضا وفیصلے سے کون سرتابی اور روکشی کا پتّہ رکھتاہے ؎ نیست کس را زہرۂ چون و چرا ہست سلطانی مسلّم مر او را کسی کو آپ کے حکم کے سامنے چوں وچرا کا پتّہ نہیں، آپ ہی کے لیے حقیقی سلطانی مخصوص اور مسلّم ہے۔ اے رب! میں نے ماں کی روح قبض کرتے ہوئے اپنے دل میں صدمۂ عظیم دیکھا اور اس بچے کی یاد اور اس کی بے کسی اب تک میرے تصور وخیال سے نہ گئی۔ حق تعالیٰ نے فرمایا:اب تم اس بچے کا ماجرا سنوکہ میں نے کس طرح اس کی پرورش کی؟ اس طفل کے لیے میں نے موجوں کوحکم دیاکہ اس کو ایک جنگل میں ڈال دو۔اور ایسے جنگل میں جہاں سوسن اور ریحان اورخوشبودار پھول ہوں اور میوہ دار درخت ہوں اور اس میں آبِ شیریں کے چشمے ہوں۔ میں نے اس بچے کو سوناز سے پالا۔ لاکھوں مرغِ مطرب خوش صدانے اس باغ میں سوآوازیں ڈال رکھی تھیں اور میں نے برگِ نسرین سے اس کا بستر بنایا تاکہ فتن اور آفات سے وہ بچہ مامون رہے، میں نے خورشید کو حکم دیاکہ اس کی طرف شعاعیں تیز نہ کر اور اپنی رفتار میں اس کا خیال رکھ، ہواکو حکم دیاکہ اس پر آہستہ چل،ابر کو حکم دیا کہ اس پر بارش مت برسا،برق کو حکم دیا کہ اس پر تیزی سے میل مت کر، موسمِ خزاں کو حکم دیا کہ اس چمن سے اعتدال کوسلب مت کر۔ حاصل یہ کہ وہ باغ مثلِ روحِ عارفین کے صرصر اور سموم سے محفوظ رہا۔ ایک چیتے نے نیا بچہ جناتھا۔ میں نے اس کو حکم دیا کہ اس طفل کودودھ پلائے یہاں تک کہ وہ بچہ فربہ شیر مرد ہوگیا۔ جب اس کے دودھ چھڑانے کا وقت آیا تو میں نے جنات کو حکم دیا کہ اس کو بولنا اور حکومت کرنا سکھاؤ۔ اس کی میں نے اس طرح پرورش کی جو تمام خلائق کے لیے عجیب اور حیرت خیزہے اور میرے تصرفات اسی طرح عجیب و غریب ہوتے ہیں۔ میں نے حضرت ایوب علیہ السلام کے بدن میں کیڑوں کی پرورش کرائی اور