معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
فائدہ : اسی طرح حمقائے زمانہ اہل اللہ کی ظاہری خستگی اور بے سرو سامانی کو اپنے بنگلوں اور دیگر ٹھاٹ باٹ اور قیمتی کپڑوں سے موازنہ کرکے دھوکے میں مبتلا ہوجاتے ہیں، انھیں یہ خبر نہیں کہ خزانہ ویرانے میں ہی ہوتاہے اور بے سرو سامانی ہی میں میرِ سامانیت، اور اس دیوانگی ہی میں صد فرزانیت مخفی ہے یعنی اللہ والوں کی روح میں تعلق مع اللہ کا خزانہ ہے، ان کی بے سرو سامانی سے دھوکا نہ کھانا چاہیے، خدا ان معاندین کو ہدایت دے جو اہل اللہ سے نفور ہیں اور محروم ہیں۔ القصہ مختصر یہ کہ وہ تاجردرخت سے دیکھتارہتاہے اس دریائی گاؤ کو کہ کب یہ احمق اس کیچڑ سے مایوس ہوکر دریاکی طرف رخ کرے اور پھر اتر کر موتی نکال کر کامیاب واپس جاتاہے، اسی طرح اللہ والوں سے استفادے میں ان کے جسمِ خاکی پر نظر مت کرو،ان کی روح سے اللہ کی خوشبو سونگھو۔ جس طرح مجنون کو جب علم ہوا کہ لیلیٰ کا انتقال ہوگیا تو قبرستان گیا اور زارو قطار روتاہواہر قبرکی مٹی کوسونگھتاتھا یہاں تک کہ جب لیلیٰ کی قبر پر پہنچا تو مٹی کو سونگھ کر کہاکہ ہاں!یہی لیلیٰ کی قبر ہے: مولانارحمۃ اللہ علیہ اسی کو فرماتے ہیں۔ ہمچو مجنوں بو کنم ہر خاک را تا بیابم خاکِ لیلیٰ بے خطا مثلِ مجنون کے میں بھی ہرخاک کو سونگھتاہوں یہاں تک کہ خاکِ لیلیٰ کو میں بے خطا پالیتاہوں، اسی طرح مولیٰ کی خوشبواللہ والوں سے اللہ کے سچے مجنون اور طالب کو مل جاتی ہے اور وہ چند مجالس اور صحبتوں میں سونگھ لیتاہے کہ اس جسم کے اندر جو قلب ہے وہ تعلق مع اللہ کی خاص تجلّی سے مشرف ہے۔ حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سفر میں حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا:تحقیق کہ میں یمن کی طرف سے اللہ کی خوشبو پارہاہوں،یہ حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ کی خوشبو تھی جو یمن کے کسی قصبۂ قرن میں بہت اللہ والے، اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے عاشق تھے اور ماں کی خدمت کے سبب دربارِ نبوی