معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
پر پھینک دیتاہے، اس سے سبزہ زار تاریک ہوجاتاہے کیوں کہ کیچڑ موتی کی شعاعِ نورکوپھیلنے سے روک دیتاہے۔ وہ دریائی گاؤ تھوڑی دیر اسی چراگاہ میں دوڑا پھرتاہے تاکہ اس مخالف کو سینگ میں لپیٹ لے مگر وہ درخت پر مامون بیٹھا رہتا ہے ۔ پس جب وہ دریائی گاؤناامید ہوجاتاہے تو وہاں آتاہے جہاں موتی رکھا تھا مگروہاں آکرکیچڑ دیکھتاہے جو دُرشا ہوار کے اوپر رکھاہواہے۔ پس کیچڑ دیکھ کر بھاگ جاتاہے۔ اب مولانا یہاں ایک عظیم نصیحت فرماتے ہیں کہ ابلیس لعین بھی اسی جانورکی طرح سیدناآدم علیہ السلام کے خاکی پتلے کو دیکھ کر بھاگا اور سجدۂ تعظیمی کرنے سے انکار کیااور امرِ الٰہی پر اعتراض کیا کہ خاک سے آگ افضل ہے اور یہ خاکی ہیں اور میں ناری ہوں اور ابلیس بدبخت کو یہ عقل نہ آئی کہ اس خاک اور آب وگل کے اندرخلافتِ الٰہیہ کی تاجدار سیدنا آدم علیہ السلام کی روح مخفی ہے۔ اِھْبِطُوْا افگند جاں را در بدن تا بگل پنہاں بود درِّ عَدَن حکمِ الٰہی اِھْبِطُوْا نے سیدنا آدم علیہ السلام کی روحِ مبارک کو جسدِ خاکی میں ڈال دیا اور آپ کے آب وگل کے پتلے میں در عدن مخفی ہوگیا۔ اے رفیقاں زیں مقیل وزاں مقال اِتَّقُوْا اِنَّ الْھَوٰی حَیْضُ الرِّجَالِ اے رفیقو! اس قیلولہ سے اور مقولہ سے پرہیز کرو تحقیق کہ ہوائے نفسانی حیض الرجال ہے یعنی زندگی کو محض عیش کوشی اور فضول بحث و مباحثہ میں ضایع کرنے کے بجائے سلوک طے کرنے میں فورًا مشغول ہوجاؤ۔ کاں بلیس از متنِ طیں کو رو کرست گاؤ کے داند کہ در گل گوہر ست کہ وہ ابلیس مابین الطین (مٹی کے باطن) سے بے خبراور اندھا تھا۔ وہ دریائی گاؤکب واقف تھا کہ کیچڑ میں موتی پوشیدہ ہے۔