معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
پھول کے کان میں آپ نے کیا بات فرمادی جس کی مسرّت سے وہ ہنستارہتاہے اور بلبل سے آپ نے کیا فرمادیاکہ وہ دردِ عشق سے گریہ وزاری اور نالہ و فغاں میں مشغول ہے۔ جس بندے پر جو حال میاں چاہتے ہیں طاری فرمادیتے ہیں۔ میرے شیخ حضرت شاہ پھولپوری قدّس سرّہ العزیز مجھ سے گاہ گاہ ایک عاشقِ مجذوب کا واقعہ ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ ایک مجذوب کسی دیہات کے رہنے والے تھے۔ حق تعالیٰ کی طرف سے ان کے باطن پر قبض طاری کردیاگیا۔ اصطلاحِ تصوّف میں قبض اس حالت کو کہتے ہیں کہ دل پر ایک کیفیتِ جمود وافسردگی پیدا ہوجاتی ہے اور حق تعالیٰ کے ساتھ جو حضوری نصیب رہتی ہے اس میں کمی محسوس ہونے لگتی ہے۔ عبادات میں جی نہیں لگتا، ذکر کی لذت اور کیفیتِ سرور چھین لی جاتی ہے۔ اس حالت کے طاری کرنے میں سالک کی تربیت اور ترقی مقصود ہوتی ہے چوں کہ اگر ہمیشہ حضور وانشراح اور مشاہدہ کی حالت باقی رہے تو پندار وعُجب پیداہوجائے جو اس راہ میں موجبِ ہلاکت وخسران ہے۔ حق تعالیٰ کو بندوں کے تمام معاصی مبغوض ہے مگر ان میں تکبر اور خود بینی سخت تر مکروہ اور مبغوض ہے۔قبض کے طاری ہونے سے عاجزی اور شکستگی پیدا ہوتی ہے جو عنداللہ نہایت محبوب ہے، عبد کے معنیٰ ہی میں ذلت اور شکستگی داخل ہے لہٰذا بندہ ہوکر تکبراور پندار کے نشے میں چورہے یہ انتہائی خسارے کی بات ہے اور منافئ عبدیت ہے ۔ ز خاک آفریدت خداوند پاک تواے بندہ افتادگی کن چو خاک خداوندپاک نے تجھ کو خاک سے پیدا کیاہے تو اے بندہ! تو مثلِ خاک کے خاکساری اور عاجزی اختیار کر۔ قبض کی مذکورہ کیفیت کبھی صدورِ معصیت سے طاری ہوجاتی ہے کیوں کہ گناہ سے دل میں ظلمت پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے عبادت میں جی نہیں لگتا۔ دونوںصورتوں میں استغفار کی کثرت نہایت مفید ہے۔ میرے شیخ حضرت شاہ پھولپوری قدّس سرّہ العزیزنے ارشاد فرمایا تھا کہ کتناہی شدید قبض طاری ہو، قلب میں انتہائی ظلمت اور جمود پیدا ہوگیا ہواور