معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
اسی مضمون کو حضرت مولانا عارف رومی رحمۃاللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ کا راستہ نِری عقل سے طے نہیں کیا جاسکتا۔ کسی اللہ والے کی صحبت میں اصلاح کی غرض اور نیت سے حاضری ضروری ہے، اگر مقبولینِ کاملین کی اطاعت سے جی چراؤگے تو ہمیشہ ناقص رہوگے اور کمال نصیب نہ ہوگا۔ چناں چہ شیخ بوعلی سیناشیخ الفلاسفہ ہو نے کے باوجود موت کے وقت عقل کوبے ساز وسامان دیکھتاتھا اور محض بے نتیجہ و بے فائدہ کہتاتھااور اقرار کرتاتھا کہ ہم نے عقل وذکاوت کا گھوڑا فضول دوڑایااور ذہانت وذکاوت کے دھوکے میں آکراہل اللہ کی اطاعت نہ کی اور خیالی سمندر میں تیرتے رہے۔ مولانا فرماتے ہیں کہ بحرِ معرفت میں تیرناعقل وذکاوت سے کام لینابالکل بے کار ہے وہاں تو کشی نوح علیہ السّلام یعنی اعانتِ اہل للہ کی ضرورت ہے۔ دیکھو حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے کنعان نے عقل کا گھوڑا دوڑایا کہ مجھ کو اس طوفان سے اونچے اونچے پہاڑ بچالیں گے اورخدائی کشتی کو حقیر سمجھا۔ نتیجہ کیا ہوا کہ وہ معمولی کشتی فضلِ الٰہی کے سبب طوفان سے محفوظ رہی اور اونچے اونچے پہاڑوں پر طوفان پہنچ گیا اور کنعان ہلاک ہوگیا۔ ضعفِ قطب در تن بُود در روح نے ضعف در کشتی بود در نوح نے (رومیؒ ) پس مولانا نصیحت فرماتے ہیں کہ تم چوں کہ صحیح نظر نہیں رکھتے اس لیے اہل اللہ کی محبت اور ان کی اطاعت کی کشتی تم کو حقیر معلوم ہوتی ہے اور اہلِ یورپ کی تقلیدمیں عقل کے پہاڑ کوبہت بڑا سمجھتے ہو۔ لیکن خبردار ! اس بظاہر حقیر کشتی کو واقع میں حقیر مت سمجھنا یعنی اہل اللہ اکثر پھٹے پرانے لباس میں ہوتے ہیں اور سادہ زندگی گزارتے ہیں تو ان کی سادگی کی وجہ سے ان کو حقیر مت سمجھنا بلکہ حق تعالیٰ کے اس فضل کو دیکھنا جو ان کے شاملِ حال ہے۔ اس واصل بحق کشتی کی جلالتِ شان پر نگاہ رکھو، کوہِ عقل کی بلندی پر نظر نہ کرو۔ کیوں کہ قہرِ خداوندی کی ایک موج اس کوہ کو زیرو زبرکرسکتی ہے لیکن وہ کشتی جو رحمت کے سائے میں چل رہی ہے اس کی ظاہری طاقت وجسامت کو مت دیکھو کہ یہ