حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تمہارا دشمن اس دریاکی وجہ سے تم سے محفوظ ہوگیاہے۔ تم لوگ تو ان تک نہیں پہنچ سکتے، لیکن وہ لوگ جب چاہیں کشتیوں میں بیٹھ کرتم پر حملہ آور ہوسکتے ہیں۔ تمہارے پیچھے ایسی کوئی چیز نہیں ہے جس سے تم پر حملہ کا خطرہ ہو۔ میں نے پکارا رادہ کرلیا ہے کہ دریا پار کرکے دشمن پر حملہ کیاجائے۔ تمام مسلمانوںنے بہ یک زبان کہا: آپ ضرور ایسا کریں، اللہ ہمیں اور آپ کو ہدایت پر پکا رکھے۔ پھر حضرت سعد ؓ نے لوگوں کو دریا پارکرنے کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا: آپ لوگوں میں سے کون اس بات کے لیے تیار ہے کہ پہل کرے اور دریاپارکرکے گھاٹ کے دوسرے کنارے پر قبضہ کرلے اور اس کنارے کی دشمن سے حفاظت کرے، تاکہ دشمن مسلمانوں کو اس کنارے تک پہنچنے سے روک نہ سکے۔ اس پر حضرت عاصم بن عمرو ؓ فورًا تیارہوگئے، اور ان کے بعد اور چھ سو بہادر آدمی تیار ہوگئے۔ حضرت سعد نے حضرت عاصم کو ان کا امیر بنایا۔ حضرت عاصم ان کولے کر چلے، پھر دِجلہ کے کنارے کھڑے ہوکر اپنے ساتھیوںسے کہا: آپ میں سے کون میرے ساتھ چلنے کو تیار ہے تاکہ ہم گھاٹ کے پرلے کنارے کو دشمن سے محفوظ کرلیں؟ اس پر ان میں سے ساٹھ آدمی تیار ہوگئے۔ حضرت عاصم نے ان کو دوحصوں میں تقسیم کیا، آدھے لوگوں کو گھوڑوں پر اور آدھے لوگوں کو گھوڑیوں پر بٹھایا تاکہ گھوڑوں کے لیے تیرنے میں آسانی رہے، پھر وہ لوگ دِجلہ میں داخل ہوگئے (اور دریاکو اللہ کی مدد سے پار کرلیا)۔ جب حضرت سعد نے دیکھا کہ حضرت عاصم نے گھاٹ کے پَرلے کنارے پر قبضہ کرکے محفوظ کرلیاہے تو انھوں نے تمام لوگوں کو دریامیں گھس جانے کا حکم دیا اور فرمایا: یہ دعاپڑھو: نَسْتَعِیْنُ بِاللّٰہِ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْہِ، وَحَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِيِّ الْعَظِیْمِ۔ اور لشکر کے اکثر لوگ ایک دوسرے کے پیچھے چلنے لگے، اور گہرے پانی پر بھی چلتے رہے حالاںکہ دریائے دِجلہ بہت جوش میں تھا اور بہت جھاگ پھینک رہاتھا اور ریت اور مٹی کی وجہ سے اس کا رنگ سیاہ ہو رہا تھا اور لوگوں کی دو دو کی جوڑیاں بنی ہوئی تھیں اور وہ دریاپار کرتے ہوئے آپس میں اس طرح باتیں کررہے تھے جس طرح زمین پر چلتے ہوئے کیا کرتے تھے۔ ایران والے یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے، کیوںکہ اس کا انھیں وہم وگمان بھی نہیں تھا۔ وہ لوگ گھبراکر ایسے جلدی میں بھاگے کہ اپنا اکثر مال وہاںہی چھوڑ گئے اور ۱۶ ہجری صفر کے مہینہ میں مسلمان اس شہر میں داخل ہوئے، اور کسریٰ کے خزانوں میں جو تین ارب تھے ان پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا، اور شیرویہ اور اس کے بعد کے بادشاہوں نے جو کچھ جمع کیا تھا اس پر بھی قبضہ ہوگیا۔ 1 حضر ت ابو بکر بن حفص بن عمر کہتے ہیں: گھوڑے مسلمانوں کو لے کر پانی پر تیر رہے تھے۔ حضرت سعد ؓکے ساتھ حضرت سلمان ؓ چل رہے تھے اور سعد کہہ رہے تھے: اللہ ہمیں کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔ اللہ کی قسم! اگر ہمارے لشکر میں بدکاری اور گناہ اتنے نہیں ہیں جو نیکیوں پر غالب آجائیں تو اللہ ضرور اپنے دوست کی مدد کریں گے اور اپنے دین کو غالب کریں گے اور اپنے دشمن کو