حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت عبد اللہ بن بُریدہ کہتے ہیں کہ ایک صحابی نے صرف ایک حدیث سننے کے لیے حضرت فُضالہ بن عبید اللہؓکے پاس مصر کا سفر کیا۔1 ’’دارمی‘‘ میں اس کے بعد یہ مضمون ہے کہ وہ صحابی جب حضرت فضالہؓ کے پاس پہنچے تو وہ اپنی اونٹنی کو جَو مِلا ہوا پانی پلارہے تھے۔ انھیں آتا ہوا دیکھ کر حضرت فضالہؓ نے خوش آمدید کہا۔ انھوں نے کہا: میں آپ سے صرف ملنے نہیں بلکہ اس وجہ سے آیا ہوںکہ میں نے اور آپ نے حضورﷺ سے ایک حدیث سنی تھی، مجھے اُمید ہے کہ وہ آپ کو اب بھی یاد ہوگی۔ حضرت فضالہؓ نے پوچھا: وہ کون سی حدیث ہے؟ انھوں نے کہا کہ اس حدیث میں یہ اور یہ مضمون ہے۔ حضرت عبید اللہ بن عدی ؓ فرماتے ہیں کہ مجھے پتا چلا کہ حضرت علیؓ کے پاس ایک حدیث ہے، تو مجھے اس بات کا ڈر ہوا کہ کہیں حضرت علی کا انتقال ہوگیا تو پھر شاید مجھے یہ حدیث کسی اور کے پاس نہ مل سکے، اس وجہ سے میں سفر کرکے ان کے پاس عراق گیا۔2 ’’ابنِ عساکر‘‘ میں اس کے بعد یہ مضمون ہے کہ میں نے ان سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا۔ انھوں نے مجھے وہ حدیث سنائی اور مجھ سے عہد لیا کہ میں یہ حدیث کسی اور سے بیان نہ کروں، اگر وہ ایسا نہ کرتے تو میں آپ لوگوں کو وہ حدیث ضرور سنا دیتا۔ حضرت ابنِ مسعودؓکا فرمان آگے آرہا ہے جو ’’بخاری‘‘ میں منقول ہے کہ اگر مجھے کسی کے بارے میں پتا چل جائے کہ وہ مجھ سے زیادہ اﷲ کی کتاب کو جانتا ہے تو میں ضرور سفر کرکے اس کے پاس جاؤ ں۔ اور’’ ابنِ عساکر‘‘ میں ان کا یہ فرمان منقول ہے کہ اگر مجھے کسی کے بارے میں یہ پتا چلے کہ اونٹ مجھے اس تک پہنچا سکتے ہیں اور وہ حضرت محمد ﷺ پر نازل ہونے والے علوم کو مجھ سے زیادہ جانتا ہے، تو میں ضرور اس کے پاس جاؤں تاکہ میرے علم میں اور اِضافہ ہوسکے۔علم کو قابلِ اعتماد اہلِ علم سے حاصل کرنا اور جب علم نااہلوں کے پاس ہوگا تو پھر علم کا کیا حال ہوگا؟ حضرت ابو ثعلبہؓفرماتے ہیں کہ میں حضورﷺ سے ملا۔ میں نے عرض کیا: یارسول اﷲ! مجھے ایسے آدمی کے حوالے فرمادیں جو اچھی طرح سکھانے والا ہو۔ آپ نے مجھے حضرت ابو عبیدہ بن جرّاح ؓ کے حوالے فرمادیا اور ارشاد فرمایا: میں نے تمھیں ایسے آدمی کے حوالے کیا ہے جو تمھیں اچھی طرح تعلیم دے گا اور اچھی طرح ادب سکھائے گا۔1 ’’طبرانی‘‘ میں اس کے بعد یہ مضمون ہے کہ جب میں حضرت ابو عبیدہ ؓکی خدمت میں پہنچا تو وہ اور حضرت بشیر بن سعد ابو نعمانؓ آپس میں باتیں کررہے تھے۔ مجھے دیکھ کر وہ دونوں حضرات خاموش ہوگئے۔ میں نے کہا: اے بو عبیدہ! اﷲ کی قسم! حضورﷺ