حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت عمیر بن ہانی کہتے ہیں: اس پر حضرت مالک بن یُخامِر نے کھڑے ہوکر کہا: میں نے حضرت مُعاذ بن جبل ؓکو فرماتے ہوئے سنا کہ (میرے خیال میں) یہ جماعت آج کل شام میں ہے۔1 حضرت یونس بن حَلْبَس جُبُلانی سے اسی جیسی حدیث مروی ہے اور اس میں مزید یہ بھی ہے: پھر حضرت معاویہ ؓنے اس آیت کو بطورِ دلیل کے ذکر کیا: {یٰعِیْسٰی اِنِّی مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَھِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ} 2 اے عیسیٰ!(کچھ غم نہ کرو) بے شک میں تم کو وفات دینے والا ہوں اور (فی الحال) میں تم کو اپنی طرف اٹھائے لیتا ہوں اور تم کو ان لوگوں سے پاک کرنے والا ہوں جو مُنکِرہیں، اور جو لوگ تمہارا کہنا ماننے والے ہیں ان کو غالب رکھنے والا ہوں ان لوگوں پر جو کہ (تمہارے) منکر ہیں روز قیامت تک۔ 3 حضرت مکحول کہتے ہیں: حضرت معاویہ ؓنے منبر پر بیان کرتے ہوئے فرمایا: میں نے حضورﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: اے لوگو! علم تو سیکھنے سے آتاہے اور دین کی سمجھ تو حاصل کرنے سے آتی ہے اور جس کے ساتھ اللہ خیر کا ارادہ فرماتے ہیں اسے دین کی سمجھ عطافرماتے ہیں۔اور اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے اللہ سے صرف وہی ڈرتے ہیں (جو اس کی قدرت کا) علم رکھتے ہیں۔ اور میری اُمّت میں سے ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی جو لوگوں پر غالب رہے گی، اور مخالفین اور دشمنوں کی انھیں کوئی پروا نہیں ہوگی، اور یہ لوگ قیامت تک یوںہی غالب رہیں گے۔1امیرالمؤمنین حضرت عبداللہ بن زبیر ؓکے بیانات حضرت محمد بن عبداللہ َثقَفِی کہتے ہیں: ایک دفعہ حج کے موقع پر میں حضرت ابنِ زبیر ؓ کے خطبہ میں شریک ہوا۔ ہمیں ان کے بارے میں اسی وقت پتا چلا جب وہ یومُ الترویہ (آٹھویں ذی الحجہ) سے ایک دن پہلے اِحرام باندھ کر ہمارے پاس باہر آئے۔ وہ ادھیڑ عمر کے خوب صورت آدمی تھے۔ وہ سامنے سے آرہے تھے۔ لوگوں نے کہا:یہ امیرالمؤمنین ہیں۔پھر وہ منبر پر تشریف فرماہوئے اس وقت ان پر اِحرام کی دو سفید چادریں تھیں۔ پھر انھوں نے لوگوں کو سلام کیا، لوگوں نے انھیں سلام کا جواب دیا۔ پھر انھوں نے بڑی اچھی آواز سے لبیک پڑھا، ایسی اچھی آواز میں نے کبھی ہی سنی ہوگی، پھر اللہ کی حمد وثنا بیان کی، اس کے بعد فرمایا: امّا بعد! تم لوگ مختلف علاقوں سے وفدبن کر اللہ کے پاس آئے ہو، لہٰذا اللہ پر بھی اس کے فضل سے یہ لازم ہے کہ وہ اپنے پاس وفد بن کر آنے والوں کا اکرام کرے۔ اب جو اُن اُخروی نعمتوں کا طالب بن کر آیاہے جو اللہ کے پاس ہیں تو اللہ سے طلب کرنے والامحرروم نہیں رہتا، لہٰذا اپنے قول کی عمل سے تصدیق کرو، کیوںکہ قول کا سہارا عمل ہے اور اصل نیّت دل کی ہوتی ہے۔ ان دنوں میں اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، کیوںکہ ان دنوں میں اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو معاف کر دیتے ہیں۔ آپ لوگ مختلف علاقوں سے آئے ہیں آپ لوگوں کا مقصد نہ تجارت ہے اور نہ مال حاصل کرنا اور نہ ہی دنیا لینے کی اُمید میں آپ لوگ یہاں آئے ہیں۔ پھر حضرت ابنِ زبیر ؓ نے لبیک پڑھا اور لوگوں نے بھی پڑھا، پھر انھوں نے بڑی لمبی گفتگو فرمائی، پھر فرمایا: