حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میں اس سے زیادہ عجیب واقعہ کبھی پیش نہیں آیا تھا اور چوںکہ جو بھی تھک جاتاتھا اس کے سامنے فوراً ایک ٹیلہ نمودار ہوجاتاتھا جس پر وہ آرام کرلیتا تھا، اس لیے اس دن کو ٹیلوں والادن کہاجاتاتھا۔4 حضرت قیس بن ابی حازم ؓ فرماتے ہیں: جب ہم دِجلہ میں داخل ہوئے تو وہ کناروں تک لبالب بھراہواتھا۔ جب ہم اس جگہ پہنچے جہاں پانی سب سے زیادہ تھا، وہاں گھوڑے سوار کچھ دیر کھڑارہا تو پانی اس کی پیٹی تک بھی نہ پہنچا۔ 5 حضرت حبیب بن صُہبان کہتے ہیں: مسلمانوں میں سے ایک آدمی جن کا نام حجر بن عدی تھا، انھوں نے کہا: کیا تمھیں پارکرکے دشمن تک جانے سے صرف پانی کا یہ قطرہ ہی روک رہاہے؟ پانی کے قطرے سے مراد وہ دریائے دِجلہ لے رہے تھے۔ حالاںکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے: {وَمَا کَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُوْتَ اِلَّا بِاِِذْنِ اللّٰہِ کِتٰـبًا مُّؤَجَّلاً}1 اور کسی شخص کو موت آنا ممکن نہیں بدون حکم خدا تعالیٰ کے، اس طور سے کہ اس کی میعادمعین لکھی ہوئی رہتی ہے۔ پھر انھوں نے اپنا گھوڑا دریائے دِجلہ میں ڈال دیا۔ جب انھوں نے ڈالا تو تمام لوگوں نے اپنے گھوڑے ڈال دیے۔ جب دشمن نے انھیں یوں دریاپار کرتے ہوئے دیکھا تو کہنے لگے: یہ تو دیو ہیں دیو۔ اور پھر وہ سارے بھاگ گئے۔ 2 حضرت حبیب بن صُہبان ابومالک کہتے ہیں: جب مسلمان مدائن والے دن دریائے دِجلہ پارکررہے تھے تو دشمن انھیں دریاپار کرتے ہوا دیکھ کر فارسی میں کہنے لگا: یہ تو دیو ہیں۔ اور پھر آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے: اللہ کی قسم! تمھیں اب انسانوں سے نہیں بلکہ جنات سے لڑناہوگا۔ اس سے وہ مرعوب ہوگئے اور انھیں شکست ہوگئی۔ 3 حضرت اَعمش اپنے ایک ساتھی سے نقل کرتے ہیں کہ جب ہم دِجلہ کے پاس پہنچے تو وہ بہت چڑھاہواتھا اور عجمی لوگ دریاکے اس پار تھے۔ ایک مسلمان نے بسم اللہ پڑھ کر اپنا گھوڑا دریا میں ڈال دیا اور وہ ڈوبا نہیں، بلکہ اس کا گھوڑا پانی کے اوپر چلنے لگا۔ یہ دیکھ کر باقی تمام لوگوں نے بھی بسم اللہ پڑھ کر اپنے گھوڑے دریامیں ڈال دیے اور وہ سب پانی کے اوپر چلنے لگے۔ جب عجمی لوگوں نے انھیں دیکھا تو کہنے لگے: یہ تو دیو ہیں، دیو ہیں۔ پھر ان کا جدھر منہ اُٹھا اُدھر بھاگ گئے۔ 4آگ کا صحابۂ کرام ؓ کی اطاعت کرنا حضرت معاویہ بن حرمل کہتے ہیں: میں مدینہ منورہ گیا تو حضرت تمیم داری ؓ مجھے اپنے ساتھ کھانے کے لیے لے گئے۔ میں نے کھانا تو خوب کھایا، لیکن مجھے بھوک بہت زیادہ تھی اس وجہ سے میرا پیٹ پوری طرح نہیں بھرا، کیوںکہ میں تین دن سے مسجد میں ٹھہرا ہواتھا اور کچھ نہیں کھایاتھا۔ ایک دن اچانک مدینہ کے پتھریلے میدان میں آگ ظاہر ہوئی۔ حضرت عمر ؓ نے آکر حضرت تمیم سے کہا: اُٹھو اور اس آگ کے بجھانے کا انتظام کرو۔ حضرت تمیم نے کہا: اے امیرالمؤمنین! میں کون ہوتا ہوں اور میری کیا حیثیت