حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
وجہ سے نکلا ہوں اور وہ یہ ہے کہ تم ایسے علاقہ میں جارہے ہو۔ اور پھر آگے پچھلی حدیث جیسا مضمون ذکر کیا۔2قرآن کی وہ آیات جن کی مراد اﷲتعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ان کے بارے میں سوال کرنے والے پر سختی حضرت ابنِ عمرؓ کے ایک آزاد کردہ غلام کہتے ہیں کہ صَبِیغ عراقی ملکِ شام کے مسلمان لشکروں میں قرآن کی (ان) چیزوں کے بارے میں پوچھنے لگا (جن کی مراد اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا)۔ وہ چلتے چلتے مصر پہنچ گیا تو حضرت عمر وبن عاص ؓ نے اسے حضرت عمر بن خطّاب ؓ کے پاس بھیج دیا۔ جب اُن کا قاصد خط لے کر حضرت عمر ؓکے پاس آیا تو حضرت عمر ؓ نے خط پڑھ کر فرمایا: وہ آدمی کہاں ہے؟ قاصد نے کہا: قیام گاہ میںہے۔ حضرت عمرؓنے فرمایا: اس پر نگاہ رکھنا وہ کہیں چلانہ جائے، ورنہ تمھیں سخت سزادوں گا۔ قاصد اسے حضرت عمرؓ کے پاس لے آیا۔ حضرت عمرؓ نے اس سے پوچھا: تم کیا پوچھتے ہو؟ اس نے اپنے سوالات بتائے۔ حضرت عمرنے میرے پاس پیغام بھیجا کہ کھجور کی ٹہنی لاؤ(میں نے جاکر اُن کو ٹہنی لادی)۔ انھوں نے صَبِیغ کو اس ٹہنی سے اتنا مارا کہ اس کی پیٹھ زخمی ہوگئی۔ پھر حضرت عمرؓنے اسے چھوڑ دیا۔ جب اس کی پیٹھ ٹھیک ہوگئی تو اسے پھر ٹہنی سے اتنا مارا کہ اس کی پیٹھ زخمی ہوگئی اور اسے چھوڑ دیا۔ جب اس کی پیٹھ ٹھیک ہوگئی اور اسے مارنے کے لیے تیسری مرتبہ بلایا توصَبِیغ نے کہا: اے امیر المؤمنین! اگر آپ مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں تو اچھی طرح قتل کریں، اور اگر آپ میرا علاج کرنا چاہتے ہیں تو اب میں ٹھیک ہوگیا ہوں (قرآن کی متشابہ آیات کے بارے میں پوچھنے اور گفتگو کرنے سے میں نے توبہ کرلی ہے)۔ اس پر حضرت عمرؓ نے اسے اپنے علاقہ میں جانے کی اجازت دے دی اور (وہاں کے گورنر) حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کو لکھا کہ صبیغ کے ساتھ کوئی مسلمان نہ بیٹھا کرے۔ اس سے صبیغ بہت زیادہ پریشان ہوا۔ پھر حضرت ابو موسیٰؓ نے حضرت عمرؓ کو لکھا کہ اب صبیغ کی حالت ٹھیک ہوگئی ہے۔ اس پر حضرت عمر ؓ نے انھیں لکھا کہ اب لوگوں کو اس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کی اجازت دے دو۔1 حضرت سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ بنوتمیم کے ایک آدمی کو صبیغ بن عسل کہا جاتا تھا۔ وہ مدینہ منورہ آیا۔ اس کے پاس چند کتابیں تھیں اور وہ قرآن کی متشابہ آیات کے بارے میں پوچھاکرتا تھا(جن کی مراد اﷲکے سوا کوئی نہیں جانتا)۔ حضرت عمرؓ کو اس کی اطلاع ملی تو اس کے لیے کھجور کی ٹہنیاں تیار کروائیں اور آدمی بھیج کر اسے بلایا۔ جب وہ حضرت عمر کے پاس آیا تو اس سے پوچھا: تو کون ہے؟ اس نے کہا: میں اﷲ کا بندہ صبیغ ہوں۔ حضرت عمرنے فرمایا: میں اﷲ کا بندہ عمر ہوں۔ پھر حضرت عمرنے اشارہ کرکے اسے ٹہنیوں سے مارنا شروع کردیا، اور اتنا مارا کہ اس کا سر زخمی ہوگیا اور خون اس کے چہرے پر بہنے لگا، تو صبیغ نے کہا:اے امیر المؤمنین! اب بس کردیں، اﷲکی قسم! میرے دماغ میں جو (شیطان) گھسا ہوا تھا وہ اب جاتا رہا۔1