حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
آنے تک صبر کرتاہے تو اللہ اسے حلال روزی دیتے ہیں،اور اگر وہ بے صبری کرتاہے اور حرام میں سے کچھ لے لیتاہے تو اللہ اس کی اتنی حلال روزی کم کردیتے ہیں۔2حضرت عبداللہ بن عمر ؓکی نصیحتیں حضرت ابنِ عمر ؓنے فرمایا: بندے کو جب بھی دنیا کی کوئی چیز ملتی ہے تو اس کی وجہ سے اللہ کے ہاں اس کادرجہ کم ہوجاتاہے، اگرچہ وہ اللہ کے ہاں عزت وشرف والا ہو۔ 3 حضرت ابنِ عمر ؓ نے فرمایا: بندہ اس وقت تک ایمان کی حقیقت کو نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ آخرت پر دنیا کو ترجیح دینے کی وجہ سے لوگوں کو کم عقل نہ سمجھے۔ 4 حضرت مجاہدکہتے ہیں: میں حضرت ابنِ عمر ؓ کے ساتھ چلاجارہاتھا کہ اتنے میں ان کا ایک ویران جگہ پر گزر ہوا۔ انھوں نے مجھ سے فرمایا: تم یہ کہو: اے ویرانے! تیرے ہاں رہنے والوں کا کیا بنا؟ میں نے کہا: اے ویرانے! تیرے ہاں رہنے والوں کیا بنا؟ حضرت ابنِ عمرؓنے فرمایا: وہ سب خود تو چلے گئے، البتہ ان کے اعمال باقی رہ گئے۔ 5حضرت عبداللہ بن زبیر ؓکی نصیحتیں حضرت وَہب بن کیسانکہتے ہیں: حضرت عبداللہ بن زبیر ؓنے مجھے یہ نصیحت لکھ کر بھیجی: امابعد! تقویٰ والے لوگوں کی کچھ نشانیاں ہوتی ہیں جن سے وہ پہچانے جاتے ہیں اور وہ خود بھی جانتے ہیں کہ ان کے اندر یہ نشانیاں ہیں۔اور وہ نشانیاں یہ ہیں: مصیبت پر صبر کرنا، رضابرقضا، نعمتوں پر شکر کرنا اور قرآن کے حکم کے سامنے جھک جانا۔ امام کی مثال بازار جیسی ہے۔ جو چیز بازار میں چلتی ہے اور جس کا رواج ہوتاہے وہی چیز بازار میں لائی جاتی ہے۔ اسی طرح امام کے پاس اگر حق کارواج چل پڑے تو اس کے پاس حق ہی لایاجائے گا اور حق والے ہی اس کے پاس آئیں گے، اور اگر اس کے پاس باطل کا رواج چل پڑے تو باطل والے ہی اس کے پاس آئیں گے اور باطل ہی اس کے پاس چلے گا۔ 1حضرت حسن بن علی ؓکی نصیحتیں حضرت حسن بن علی ؓنے فرمایا: جو دنیا کو طلب کرتاہے دنیا اسے لے بیٹھتی ہے اور جو دنیا سے بے رغبتی اختیار کر لیتا ہے تو اسے اس کی پروا بھی نہیں ہوتی کہ کون دنیا کو استعمال کررہاہے۔ دنیا کی طلب والا اس آدمی کا غلام ہوتاہے جو دنیا کا مالک ہوتا ہے۔ اور جس کے دل میں دنیا کی طلب نہیں ہوتی اسے تھوڑی دنیا کافی ہوجاتی ہے، اور جس کے دل میں طلب ہوتی ہے اسے ساری دنیا بھی مل جائے تو بھی اس کا کام نہیں چلتا۔ اور جس کا آج کا دن دینی اعتبار سے کل گزشتہ کی طرح ہے تو وہ دھوکے میں ہے اور جس کا آج کا دن کل آیندہ سے بہتر ہے، یعنی کل آیندہ میں اس کی دینی حالت آج سے خراب ہوگئی تو وہ سخت نقصان میں ہے۔ اور جو اپنی ذات کے