حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہوجاتا تھا کہ دیکھنے والا یوں سمجھتا تھا کہ اب شاید یہ دونوں کبھی آپس میں اکٹھے نہیں ہوں گے، لیکن وہ دونوں جب اس مجلس سے اٹھتے تو ایسے لگتا کہ کوئی بات ہوئی ہی نہیں تھی بالکل ٹھیک ٹھاک ہوتے۔5آدمی کا اس وجہ سے علم کی مجلس میںآنا چھوڑ دینا تاکہ دوسرے لوگ علم حاصل کرسکیں حضرت عُقبہ بن عامرؓفرماتے ہیں کہ میں بارہ سواروں کی جماعت میں (اپنی بستی سے) چلا اور سفر کرکے مدینہ حضورﷺ کی خدمت میں پہنچا۔ ہم آپ کے ہاں ٹھہرگئے۔ میرے ساتھیوں نے کہا: ہمارے اونٹ کون چرائے گا تاکہ (وہ تو ہمارے اونٹ لے کر چلاجائے اور فارغ ہوکر) ہم جا کر حضورﷺ سے علم کی روشنی حاصل کرسکیں اور شام کو جب وہ اونٹ چرا کر واپس آئے گا تو ہم نے جو کچھ دن بھر میں حضورﷺ سے سنا ہوگا وہ سب اسے بتادیں گے؟میں اونٹ چرانے کے لیے تیار ہوگیا اور چند دن اونٹ چراتا رہا۔ پھر میں نے دل میں سوچا کہ کہیں میرا نقصان تو نہیں ہورہا؟ کیوںکہ میرے ساتھی حضورﷺ سے وہ حدیثیں سنتے ہیں جو میں نہیں سنتا اور آپ سے وہ کچھ سیکھ رہے ہیں جو میں نہیں سیکھ رہا۔ چناںچہ ایک دن (میں اونٹ لے کر نہ گیا اور دوسرے ساتھی اپنے اپنے اونٹ لے کر گئے اور) میں مجلس میں حاضر ہوا تو میں نے ایک آدمی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ حضورﷺ نے فرمایا: جو پورا وضو کرے گا وہ اپنے گناہوں سے ایسے پاک صاف ہوجائے گا جیسے آج ہی اس کی ماں نے اسے جنا ہو۔ میں یہ فضیلت سن کر بہت خوش ہوا اور واہ واہ! کرنے لگا۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کہا:ارے میاں! اگر تم اس سے پہلے والا کلام سن لیتے تو اور زیادہ حیران ہوتے۔ میں نے کہا: اﷲ مجھے آپ پر قربان کرے! ذرا مجھے وہ کلام تو سنادیں۔ انھوں نے فرمایاکہ حضورﷺ نے فرمایا کہ جو اس حال میںمرے کہ اﷲ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراتا ہو، تو اﷲتعالیٰ اس کے لیے جنت کے سارے دروازے کھول دیں گے کہ جس سے چاہے داخل ہوجائے اور جنت کے آٹھ دروازے ہیں۔ اس کے بعد حضورﷺ ہمارے پاس باہر تشریف لائے۔ میں آپ کے سامنے بیٹھ گیا، لیکن آپ نے مجھ سے منہ پھیرلیا اور تین مرتبہ حضورﷺ نے ایسے ہی فرمایا۔ جب آپ نے چوتھی مرتبہ بھی ایسے ہی کیا تو میں نے عرض کیا: یا نبی اﷲ!میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! آپ مجھ سے کیوں منہ پھیررہے ہیں؟ اس پر آپ نے میری طرف متوجہ ہوکر فرمایا: تمھیں ایک آدمی (کا مجلس میںآنا) زیادہ پسند ہے یا بارہ (کا)۔ جب میں نے یہ منظر دیکھا تو میں اسی وقت اپنے ساتھیوں کے پاس واپس چلا گیا۔1 حضرت عثمان بن اَبی العاصؓفرماتے ہیں کہ میں ثقیف کے وفد کے ساتھ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ہم نے نبی کریم ﷺ کے دروازے پر اپنے نئے جوڑے پہنے، میرے ساتھیوں نے کہا: ہماری سواریوں کو کون تھام کر رکھے گا؟ لیکن سب کو حضورﷺ