حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّعْجِبُکَ قَوْلُہٗ فِیْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَیُشْھِدُ اللّٰہَ عَلٰی مَا فِیْ قَلْبِہٖ} سے لے کر{ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ آیت کا نشان} تک پڑھی۔1 اور بعضاآدمی ایسا بھی ہے کہ آپ کو اس کی گفتگو جو محض دنیوی غرض سے ہوتی ہے مزیدار معلوم ہوتی ہے اور وہ اﷲکو حاضر ناظر بتاتا ہے اپنے ما فی الضمیر پر، حالاںکہ وہ (آپ کی مخالفت میں) نہایت شدید ہے۔ اور جب پیٹھ پھیرتا ہے تو اس دوڑ دھوپ میں پھرتا رہتا ہے کہ شہر میں فساد کردے اور (کسی کے) کھیت یا مواشی کو تلف کردے اور اﷲتعالیٰ فساد کو پسند نہیں فرماتے۔ـ جب لوگ اس طرح کریں گے تو قرآن والا صبرنہیں کرسکے گا۔ پھر میں نے یہ آیت پڑھی: {وَاِذَا قِیْلَ لَہُ اتَّقِ اللّٰہَ اَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بِالْاِثْمِ فَحَسْبُہٗ جَھَنَّمُط وَلَبِئْسَ الْمِھَادُآیت کا نشان وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآئَ مَرْضَاتِ اللّٰہِط وَاللّٰہُ رَئُ وْفٌم بِالْعِبَادِآیت کا نشان}2 اور جب اس سے کوئی کہتا ہے کہ خدا کا خوف کر، تو نخوت اس کو اس گناہ پر (دونا) آمادہ کردیتی ہے۔ سو ایسے شخص کی کافی سزا جہنم ہے اور وہ بری ہی آرام گاہ ہے۔ اور بعضا آدمی ایسا بھی ہے کہ اﷲتعالیٰ کی رضا جوئی میں اپنی جان تک صرف کرڈالتا ہے اور اﷲتعالیٰ ایسے بندوں کے حال پر نہایت مہربان ہیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! تم نے ٹھیک کہا۔3 حضر ت عبد اﷲبن عبید بن عمیر کہتے ہیں کہ حضرت ابنِ عباسؓ نے فرمایا: ایک دفعہ میں حضرت عمرؓ کے ساتھ تھا اور میں نے ان کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: میرا خیال یہ ہے کہ قرآن لوگوں میں بہت زیادہ پھیل گیا ہے۔ میں نے کہا: اے امیر المؤمنین! مجھے تو یہ بات بالکل پسند نہیں ہے۔ حضرت عمرنے میرے ہاتھ میں سے اپنا ہاتھ کھینچ کر فرمایا: کیوں؟ میں نے کہا: اس لیے کہ جب سب لوگ قرآن پڑھیں گے(اور صحیح مطلب سمجھنے کی اِستعداد نہیں ہوگی) تو اپنے طور سے معنی اور مطلب تلاش کرنے لگیں گے۔ اور جب معنی و مطلب تلاش کرنے لگیں گے تو ان میں اختلاف ہوجائے گا اور جب ان میں اختلاف ہوجائے گا تو ایک دوسرے کو قتل کرنے لگیں گے۔ یہ سن کر حضرت عمر نے مجھے چھوڑ دیا اور الگ بیٹھ گئے۔ بس وہ دن میں نے جس پریشانی میں گذارا یہ اﷲ ہی جانتا ہے پھر ظہر کے وقت ان کا قاصد میرے پاس آیا اور اس نے کہا: امیر المؤمنین بلارہے ہیں چلو۔ میں ان کے پاس گیا تو انھوں نے فرمایا: تم نے کیا بات کہی تھی؟ میں نے ساری بات دہرادی۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: (سمجھتا تو میں بھی اسے تھا لیکن) میں لوگوں سے یہ بات چھپاتا تھا۔1قرآن کے قاریوں کو نبی کریم ﷺ کے صحابہؓ کی نصیحتیں حضرت کنانہ عدوی کہتے ہیں کہ ملکِ شام میں مسلمانوں کے جو لشکر تھے ان کے اُمرا کو حضرت عمر بن خطابؓ نے خط میں یہ لکھا کہ قرآن کے تمام حافظوں کی فہرست میرے پاس بھیج دو تاکہ میں ان کا وظیفہ بڑھاؤں اور انھیں اطرافِ عالم میں لوگوں کو قرآن سکھانے کے لیے بھیج دوں۔ اس پر حضرت (ابو موسیٰ) اَشعریؓ نے لکھا کہ ہمارے ہاں حافظوں کی تعداد تین سو سے زیادہ ہوگئی