حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کرے جو نیک لوگوں نے کیا ہو۔ اور اگر ایسا معاملہ پیش آجائے جو نہ کتاب اﷲ میں ہو، اور نہ اﷲکے نبی ﷺ اور نیک بندوں نے اس کے بارے میں کوئی فیصلہ کیا ہو، تو پھر اپنی رائے سے اجتہاد کرے، اور اپنی اس بات پر پکّا رہے اور شرمائے نہیں۔ دوسری روایت میں یہ ہے کہ پھر اپنی رائے سے اجتہاد کرے اور یہ ہرگز نہ کہے: میرا خیال تو ایسا ہے۔ البتہ میں ڈرتا بھی ہوں کیوںکہ حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے، البتہ ان دونوں کے درمیان بہت سے مشتبہ اُمور ہیں(جن کا حلام یا حرام ہونا واضح نہیں ہے)۔ اس لیے وہ کام چھوڑ دو جن میںکسی قسم کا شک ہے اور وہ کام اختیار کرو جن میں کوئی شک نہیں۔1 حضرت عبداﷲبن اَبی یزید کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابنِ عباسؓ کا یہ معمول دیکھا کہ جب ان سے کوئی چیز پوچھی جاتی اور وہ اﷲکی کتاب میں ہوتی تو وہ فرما دیتے۔ اور اگر وہ اﷲکی کتاب میں نہ ہوتی، لیکن اس کے بارے میں حضورﷺ سے کچھ منقول ہوتا تو وہ فرما دیتے۔ اور اگر وہ اﷲ کی کتاب میں نہ ہوتی اور حضورﷺ سے بھی کچھ منقول نہ ہوتا، لیکن حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کی طرف سے کچھ منقول ہوتا تو وہ فرما دیتے۔ اور اگر وہ اﷲ کی کتاب میں نہ ہوتی، اور حضورﷺ سے حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ سے بھی کچھ منقول نہ ہوتا، تو پھر اپنی رائے سے اجتہاد کرتے۔2 حضرت ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں: جب ہمارے پاس حضرت علیؓ کی طرف سے کوئی مضبوط دلیل آجاتی تو ہم اس کے برابر کسی کو نہ سمجھتے (بلکہ اسی کو اختیار کرلیتے)۔3 حضرت مسروق کہتے ہیں: میں نے حضرت اُبی بن کعبؓ سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا تو فرمایا: کیا یہ چیز پیش آچکی ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ تو فرمایا: جب تک یہ پیش نہ آجائے اس وقت تک ہمیں آرام کرنے دو۔ جب پیش آجائے گی تو پھر ہم کوشش کرکے اپنی رائے بتادیں گے۔ 4فتویٰ دینے میں احتیاط سے کام لینا اور صحابہؓ میں کون فتویٰ دیا کرتے تھے حضرت عبدالرحمن بن اَبی لیلیٰ کہتے ہیں: میں نے حضورﷺ کے ایک سو بیس صحابہ ؓ کو مسجد میں پایا کہ ان میں جو حدیث بیان کرنے والے تھے وہ یہ چاہتے تھے کہ ان کا بھائی حدیث بیان کردے اور انھیں حدیث بیان نہ کرنی پڑے، اور ان میں جو بھی مفتی تھے وہ یہ چاہتے تھے کہ ان کا بھائی فتویٰ دے دے اور خود اُنھیں فتویٰ نہ دینا پڑے۔1 حضرت ابنِ مسعودؓ نے فرمایا: وہ آدمی پاگل ہے کہ اس سے جو بھی فتویٰ پوچھا جائے وہ فوراً فتویٰ دے دے۔2