حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نبی کریم ﷺ کی اپنی اُمّت کے لیے دعائیں حضرت عبّاس بن مِرداس ؓ فرماتے ہیں: نبی کریم ﷺ نے عرفات (یعنی حج کے دن نو ذی الحجہ) کی شام کو اپنی اُمّت کے لیے مغفرت اور رحمت کی دعا مانگی اور بہت دیرتک یہ دعامانگتے رہے۔ آخر اللہ نے وحی بھیجی کہ میں نے تمہاری دعا منظور کرلی اور ان کے جن گناہوں کا تعلق مجھ سے تھا وہ میں نے معاف کردیے، لیکن انھوں نے ایک دوسرے پر جو ظلم کررکھاہے اس کی معافی نہیں ہوسکتی۔ اس پر حضورﷺ نے غایتِ شفقت کی وجہ سے عرض کیا: اے ربّ! تو یہ کرسکتاہے کہ مظلوم کو اس ظلم سے بہتر بدلہ اپنے پاس سے دے دے اور ظالم کو معاف فرمادے۔ اس شام کو تو اللہ نے یہ دعا قبول نہ فرمائی۔ البتہ مُزْدَلِفَہ کی صبح کو حضور ﷺ نے یہ دعا پھر مانگنی شروع کی تو اللہ نے قبول فرمالی اور فرمایا: چلو ظالموں کو بھی معاف کردیا۔ اس پر حضورﷺ مسکرانے لگے، تو بعض صحابہ ؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ! (یہ تہجد کا وقت ہے) آپ اس وقت تو مسکرایا نہیں کرتے تھے کیوں مسکرارہے ہیں؟ فرمایا: میں اس وجہ سے مسکرارہاہوں کہ جب اللہ کے دشمن ابلیس کو پتا چلا کہ اللہ تعالیٰ نے ظالم اُمتیوں کے بارے میں بھی میری یہ دعا قبول کرلی ہے تو وہ ہلاکت اور بربادی پکار نے لگا اور سرپر مٹی ڈالنے لگا (اسے دیکھ کر میں مسکرا رہاتھا)۔2 حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ فرماتے ہیں: حضورﷺ نے حضرت ابراہیم ؑ کے اس قول کی تلاوت فرمائی: {رَبِّ اِنَّھُنَّ اَضْلَلْنَ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ}3 اے میرے پروردگار! ان بتوں نے بہتیرے آدمیوں کو گمراہ کردیا، پھر جو شخص میری راہ پر چلے گا وہ تو میرا ہے ہی، اور جو شخص (اس باب میں) میرا کہنا نہ مانے سو آپ تو کثیر المغفرۃ (اور) کثیر الرحمۃ ہیں۔ اور حضرت عیسٰی ؑ کے اس قول کی تلاوت فرمائی: {اِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَ}1 اگر آپ ان کو سزادیں تو یہ آپ کے بندے ہیں، اور اگر آپ ان کو معاف فرمادیں تو آپ زبردست ہیں حکمت والے ہیں۔ پھر آپ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر اُمّت کے لیے یہ دعا شروع کردی: اے اللہ! میری اُمّت۔ اے اللہ! میری اُمّت۔ اے اللہ! میری اُمّت اور آپ رونے لگے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے جبرائیل! تمہارا ربّ سب کچھ اچھی طرح جانتاہے، لیکن تم محمد ﷺ کے پاس جائو اور ان سے پوچھو کہ وہ کیوں رو رہے ہیں؟ چناںچہ حضرت جبرائیل ؑ نے حاضر ہوکر پوچھا۔ حضور ﷺ نے رونے کی وجہ بتائی (کہ اُمّت کے غم میں رورہاہوں۔ حضرت جبرائیل ؑ نے واپس آکر اللہ تعالیٰ کو وجہ بتائی)، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: محمد کے پاس جائو اور ان سے کہو:ہم تم کو تمہاری اُمّت کے بارے میں راضی کریں گے، اور تمھیں رنجیدہ اور غمگین نہ ہونے دیں گے۔2 حضرت انس ؓ فرماتے ہیں: حضورﷺ نے اپنی اُمّت کے لیے یہ دعامانگی: اَللّٰہُمَّ أَقْبِلْ بِقُلُوْبِھِمْ عَلٰی طَاعَتِکَ، وَحُطَّ مِنْ وَّرَائِھِمْ بِرَحْمَتِکَ۔