حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس نے زور لگاکر بھیڑیے سے بکری کو چھڑوا لیا۔ تو بھیڑیا اپنی دُم پر بیٹھ کر کہنے لگا: کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے؟ جو روزی اللہ نے مجھے پہنچائی وہ تم مجھ سے چھینتے ہو۔ اس چرواہے نے کہا: کیا عجیب بات ہے کہ بھیڑیا مجھ سے انسانوں کی طرح بات کررہاہے۔ بھیڑیے نے کہا: کیا میں تمھیں اس سے زیادہ عجیب بات نہ بتائوں۔ یَثرِب میں حضرت محمدﷺ گزشتہ زمانے کی خبریں لوگوں کو بتارہے ہیں۔ یہ سنتے ہی وہ چرواہا اپنی بکریاں ہانک کر مدینہ پہنچ گیا اور بکریوں کو مدینہ کے ایک کونے میں ایک جگہ اکٹھا کرکے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو سارا قصہ سنایا۔ حضورﷺ کے فرمانے پر مدینہ میں اعلان کیا گیا کہ آج سب (مسجدِ نبوی میں) نماز اکٹھے پڑھیں (اپنی مسجدوں میں نہ پڑھیں)۔ جب لوگ جمع ہوگئے تو آپ ﷺ نے باہر آکر اس چرواہے سے فرمایا: انھیں وہ واقعہ سنائو۔ اس نے تمام لوگوں کے سامنے و ہ واقعہ بیان کیا۔ حضورﷺ نے فرمایا: اس نے سچ کہا ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد (ﷺ) کی جان ہے! اس وقت تک قیامت قائم نہ ہوگی جب تک کہ درندے انسانوں سے باتیں نہ کرنے لگیں، اور آدمی سے اس کے کوڑے کا سرا اور اس کی جوتی کا تسمہ بات نہ کرنے لگے، اس کے گھروالوں نے اس کے بعد جو گڑبڑکی ہے وہ اسے اس کی ران نہ بتائے۔ 2 قاضی عیاض نے ذکر کیاہے کہ بھیڑیے سے حضرت اُہبان بن اَوسؓنے بات کی تھی۔ اس لیے انھیں بھیڑیے سے بات کرنے والا کہہ کر پکاراجاتاتھا۔ اور ابنِ واہب نے روایت کی ہے کہ بھیڑیے سے بات کرنے کا واقعہ حضرت ابو سفیان بن حرب اور حضرت صفوان بن اُمیَّہ ؓ کے ساتھ بھی پیش آیاتھا۔ انھوں نے دیکھا کہ ایک بھیڑیا ایک ہرن کو پکڑنے کی کوشش کررہا ہے اتنے میں ہرن حرم میں داخل ہوگیا، تو وہ بھیڑیا واپس جانے لگا۔ اس سے ان دونوں کو تعجب ہوا۔ اس پر اس بھیڑیے نے کہا: اس سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ حضرت محمد بن عبداللہ (ﷺ) مدینہ میں تمھیں جنت کی دعوت دے رہے ہیں اور تم انھیں جہنم کی آگ کی طرف دعوت دے رہے ہو۔ (یہ دونوں حضرات اس وقت تک اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے، اس لیے حضرت صفوان سے) حضرت ابوسفیانؓنے کہا: لات وعزیٰ کی قسم! اگر تم نے مکہ میں اس بات کا تذکرہ کردیاتو سارے مکہ والے مکہ چھوڑدیں گے (اور مدینہ چلے جائیں گے)۔ 1صحابۂ کرام ؓ کے لیے دریائوں اور سمندروں کا مسخر ہونا حضرت قیس بن حجاج اپنے استاد سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمر و بن عاصؓنے جب مصر فتح کرلیا تو عجمی مہینوں میں سے بُونہ مہینے کے شروع ہونے پر مصر والے اُن کے پاس آئے اور کہا: امیر صاحب! ہمارے اس دریائے نیل کی ایک عادت ہے جس کے بغیر یہ چلتا نہیں۔ حضرت عمرو نے ان سے پوچھا: وہ عادت کیا ہے؟ انھوں نے کہا:جب اس مہینے کی بارہ راتیں گزر جاتی ہیں تو ہم ایسی کنواری لڑکی کو تلاش کرتے ہیں جواپنے والدین کی اکلوتی لڑکی ہوتی ہے۔ اس کے والدین کو راضی کرتے ہیں، اور اسے سب سے اچھے