حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہے؟ آپ کے والد (حضرت ابوبکر ؓ) قریش کے بہت بڑے عالم تھے(لہٰذا ان کی بیٹی کو ایسا ہونا ہی چاہیے)، لیکن مجھے اس بات پر تعجب ہے کہ آپ طب بھی جانتی ہیں یہ آپ نے کہا ںسے سیکھ لی؟ انھوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر (پیارسے نام بدل کر) کہا: اے عُریّہ! جب حضورﷺ کی بیماریاں زیادہ ہوگئیں تو عرب و عجم کے اَطبّا ان کے پاس دوائیاں بھیجنے لگے۔ اس طرح میں نے علمِ طب سیکھ لیا۔ احمد کی روایت میں یہ ہے کہ میں ان دوائیوں سے حضورﷺ کا علاج کیا کرتی تھی یہاں سے میں نے طب سیکھی (حضرت عروہ حضرت عائشہؓ کے بھانجے تھے)۔1ربّانی عُلما اور برے عُلما حضرت عبداﷲبن مسعود ؓ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا:تم علم کے چشمے، ہدایت کے چراغ، اکثر گھروں میں رہنے والے، رات کے چراغ، نئے دل والے اور پرانے کپڑوں والے بنو۔ آسمان میں پہچانے جاؤ گے اور زمین والوں پر پوشیدہ رہو گے۔2 ابو نُعَیم میں حضرت علیؓکی روایت میں پوشیدہ رہنے کے بجائے یہ الفاظ ہیں کہ ان صفات کی وجہ سے زمین پر بھی ذکرِ خیر ہوگا۔ حضرت وہب بن مُنَبِّہکہتے ہیں کہ حضرت ابنِ عباس ؓ کو خبر ملی کہ باب بنی سہم کے پاس کچھ لوگ تقدیر کے بارے میں جھگڑرہے ہیں۔ وہ اٹھ کر ان کی طرف چلے اور اپنی چھڑی حضرت عکرمہ کو دی اور اپنا ایک ہاتھ اس چھڑی پر رکھا اور دوسرا ہاتھ حضرت طاؤس پر رکھا۔ جب ان کے پاس پہنچے تو ان لوگوں نے خوش آمدید کہا اور اپنی مجلس میں ان کے بیٹھنے کے لیے جگہ بنائی، لیکن وہ بیٹھے نہیں بلکہ ان سے فرمایا:تم اپنا نسب نامہ بیان کرو تاکہ میں تمھیں پہچان لوں۔ ان سب نے یا ان میں سے کچھ نے اپنا نسب نامہ بیان کیا تو فرمایا: کیا تمھیں معلوم نہیں کہ اﷲ کے کچھ بندے ایسے ہیں جو گونگے اور بولنے سے عاجز نہیںہیں بلکہ اﷲکے ڈر سے خاموش رہتے ہیں۔ یہی لوگ فصاحت والے، فضیلت والے اور اﷲ تعالیٰ کی قدرت کے واقعات کو جاننے والے عُلما ہیں۔ جب انھیں اﷲکی عظمت کا دھیان آتا ہے تو ان کی عقلیں اُڑجاتی ہیں، ان کے دل شکستہ ہوجاتے ہیںاور ان کی زبانیں بند ہوجاتی ہیں۔ جب ان کو اس کیفیت سے اِفاقہ ہوتا ہے تو وہ پاکیزہ اعمال کے ذریعے سے اﷲکی طرف تیزی سے چلتے ہیں۔ حالاںکہ وہ عقل مند اور طاقت ور ہوںگے، لیکن پھر بھی وہ اپنے آپ کو کوتاہی کرنے والوں میں شمار کریں گے۔ اور اسی طرح وہ نیک اور خطاؤں سے پاک ہوں گے، لیکن اپنے آپ کو ظالم اور خطاکار لوگوں میں شمار کریں گے۔ اور اﷲکے لیے زیادہ(اعمال اور قربانی) کو زیادہ نہیں سمجھیں گے اور اﷲکے لیے کم پر وہ راضی نہیں ہوں گے اور اعمال میں اﷲکے سامنے نخرے نہیں کریں گے۔ تم انھیں جہاں بھی ملوگے وہ اہتمام اور فکر سے چلنے والے، ڈرنے والے اور کپکپانے والے ہوںگے۔ حضرت وہب فرماتے ہیں: یہ باتیں ارشاد فرماکر حضرت ابنِ عباسؓ وہاں سے اٹھے اور اپنی مجلس میں واپس تشریف لے آئے۔1 حضرت ابنِ مسعودؓ نے فرمایا: اگر علم والے علم کی حفاظت کرتے اور جو علم کے اہل ہیں ان ہی کو علم دیتے تو اپنے زمانے والوںکے