حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہوگا، اور جہنم میں جانے کے بعد غنا اور مال داری کی کوئی صورت باقی نہیں رہے گی، کیوںکہ جہنم کا قیدی کبھی چھوٹ نہیں سکے گا اور اس کا زخمی کبھی ٹھیک نہیں ہوگا اور نہ اس کی آگ کبھی بجھے گی۔ اور اگر کسی مسلمان نے کسی مسلمان کا مٹھی بھر خون بہایا ہوگا تو یہ اس کے لیے جنت میں جانے سے رکاوٹ بن جائے گا اور جب بھی جنت کے کسی دروازے سے داخل ہونا چاہے گا تو وہاں اسے یہ خون دھکے دیتا ہوا ملے گا۔ اور جان لو کہ آدمی کو مرنے کے بعد جب دفن کردیا جاتاہے تو سب سے پہلے اس کا پیٹ سڑتاہے اور اس میں سے بدبوآنے لگتی ہے،لہٰذا اس بدبو کے ساتھ حرام روزی سے گندگی کا اضافہ نہ کرو۔ اور اپنے مسلمان بھائیوں کے مال کے بارے میں اللہ سے ڈرو اور خون بہانے سے بچو۔ 1حضرت ابوامامہ ؓ کی نصیحتیں حضرت عامربن سُلَیم کہتے ہیں: ہم ایک جنازے کے ساتھ بابِ دِمَشق میں گئے۔ ہمارے ساتھ حضرت ابو اُمامہ باہلیؓبھی تھے۔ جب وہ نمازِ جنازہ پڑھاچکے اور لوگ جنازے کو دفن کرنے لگے تو انھوں نے فرمایا: اے لوگو! تم اب تو صبح وشام ایسی جگہ کررہے ہو جہاں تم لوگ اپنے اپنے حصہ کی نیکیاں اور برائیاں جمع کررہے ہو۔ پھر حضرت ابواُمامہ نے قبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: عن قریب یہاں سے کوچ کرکے اس (قبر والی) جگہ آجائوگے۔یہ قبر تنہائی کا گھر ہے، اندھیرے کا گھر ہے، کیڑوں کا گھر ہے اور تنگی کا گھر ہے، لیکن جس کے لیے اللہ قبر کو کشادہ کردیں تو یہ الگ بات ہے۔ پھر قیامت کے دن تم لوگ یہاں سے منتقل ہو کر میدانِ حشر میں پہنچ جائوگے، اور وہاں اللہ کا ایک حکم آئے گا جس سے بہت سے چہرے سفید اور بہت سے سیاہ ہوجائیں گے، پھر وہاں سے دوسری جگہ چلے جائوگے۔ اس جگہ سب لوگوں پر سخت اندھیرا چھاجائے گا۔ پھر نور تقسیم کیاجائے گا۔ مؤمن لوگوں کو تو نور مل جائے گا،لیکن کافروں اور منافقوں کو ایسے ہی چھوڑ دیاجائے گا انھیں کچھ بھی نور نہیں ملے گا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس مثال کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے: {اَوْ کَظُلُمٰتٍ فِیْ بَحْرٍ لُّجِّیٍّ یَّغْشٰہُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِہٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِہٖ سَحَابٌط ظُلُمٰتٌم بَعْضُھَا فَوْقَ بَعْضٍط اِذَا اَخْرَجَ یَدَہٗ لَمْ یَکَدْ یَرٰھَا ط وَمَنْ لَّمْ یَجْعَلِ اللّٰہُ لَہٗ نُوْرًا فَمَا لَہٗ مِنْ نُّوْرٍآیت کا نشان} 1 یا وہ ایسے ہیں جیسے بڑے گہرے سمندر کے اندرونی اندھیرے کہ اس کو ایک بڑی لہر نے ڈھانک لیا ہو، اس (لہر) کے اوپر دوسری لہر، اس کے اوپر بادل (ہے، غرض) اوپر تلے بہت سے اندھیرے (ہی اندھیرے) ہیں کہ اگر (کوئی ایسی حالت میں) اپنا ہاتھ نکا لے (اور دیکھناچاہے) تو دیکھنے کا احتمال بھی نہیں، اور جس کو اللہ ہی نور (ہدایت) نہ دے اس کو (کہیں سے بھی) نور نہیں میسر ہوسکتا۔ اور کافر و منافق مؤمن کے نورسے روشنی حاصل نہیں کرسکیں گے، جیسے اندھا بینا کی دیکھنے کی طاقت سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکتا۔ منافق مرد اور منافق عورتیں ایمان والوں سے (پلِ صراط پر) کہیں گے: {اُنْظُرُوْنَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُّوْرِکُمْ ج قِیْلَ ارْجِعُوْا وَرَآئَ کُمْ فَالْتَمِسُوْا نُوْرًا}2