حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
{مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَزِیْنَتَھَا نُوَفِّ اِلَیْھِمْ اَعْمَالَھُمْ فِیْھَا وَھُمْ فِیْھَا لَا یُبْخَسُوْنَآیت کا نشان اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ اِلَّا النَّارُ صلیق وَحَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْھَا وَبٰطِلٌ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ آیت کا نشان}1 جو شخص (اپنے اعمالِ خیر سے) محض حیاتِ دنیوی (کی منفعت) اور اس کی رونق (کا حاصل کرنا) چاہتا ہے، تو ہم ان لوگوں کے (ان) اعمال (کی جزا) ان کو دنیا ہی میں پورے طور سے بھگتا دیتے ہیں اور ان کے لیے دنیا میں کچھ کمی نہیں ہوتی۔ یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کے لیے آخرت میں بجز دوزخ کے اور کچھ (ثواب وغیرہ) نہیں، اور انھوں نے جو کچھ کیا تھا وہ آخرت میں سب کا سب ناکارہ (ثابت ہوگا) اور (واقع میں تو) جو کچھ کررہے ہیں وہ اب بھی بے اثر ہے۔2 حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن بن عوفؓ فرماتے ہیں کہ مروہ پر حضرت عبد اﷲ بن عمر اور حضرت عبداﷲبن عمر و بن العاصؓکی آپس میں ملاقات ہوئی۔ وہ دونوں کچھ دیر آپس میں بات کرتے رہے، پھر حضرت عبداﷲبن عمروؓ چلے گئے اور حضرت عبد اﷲبن عمرؓ وہاں روتے ہوئے رہ گئے۔ تو ایک آدمی نے ان سے پوچھا: اے ابو عبدالرحمن! آپ کیوں رو رہے ہیں؟ حضرت ابنِ عمر ؓ نے فرمایا: یہ صاحب یعنی حضرت عبداﷲ بن عمرو ؓ ابھی بتا کرگئے ہیں کہ انھوں نے حضورﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا، اﷲ تعالیٰ اسے چہرے کے بل آگ میں ڈال دیں گے۔3 بنو نوفل کے آزاد کردہ غلام حضرت ابو الحسن کہتے ہیں کہ جب ’’سورۂ طٰسٓمٓ شعراء‘‘ نازل ہوئی تو حضرت عبداﷲ بن رواحہ اور حضرت حسان بن ثابت ؓ روتے ہوئے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضورﷺ یہ آیت پڑھ رہے تھے: {وَالشُّعَرَآئُ یَتَّبِعُھُمُ الْغَاوٗنَ آیت کا نشان}1 اور شاعر وں کی راہ تو بے راہ لوگ چلا کرتے ہیں۔ پھر حضورﷺ {وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ} (ہاں مگر جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے) پر پہنچے تو آپ نے فرمایا: تم ہو یہ لوگ۔ پھر پڑھا: {وَذَکَرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا} (اور انھوں نے (اپنے اشعار میں) کثرت سے اﷲ کا ذکر کیا) آپ نے فرمایا: تم ہو یہ لوگ۔ پھر پڑھا: {وَانْتَصَرُوْا مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا} (اور انھوں نے بعد اس کے کہ ان پر ظلم ہوچکا ہے (اس کا) بدلہ لیا) پھر فرمایا: تم ہو یہ لوگ۔ 2 حضرت ابو صالح کہتے ہیں: جب حضرت ابو بکر ؓ کے زمانے میں یمن والے آئے اور انھوں نے قرآن سنا تو وہ رونے لگے۔ حضرت ابو بکر ؓ نے (تواضعاً) فرمایا: ہم بھی ایسے تھے پھر دل سخت ہوگئے۔ ابو نُعیم صاحبِ کتاب کہتے ہیں: دل سخت ہوجانے کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو پہچان کر دل طاقت ور اور مطمئن ہوگئے۔3جو عالم دوسروں کو نہ سکھائے اور جو جاہل خود نہ سیکھے ان دونوں کو ڈرانا اور دھمکانا حضرت اَبزیٰ خُزاعی ابو عبد الرحمن ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن حضورﷺ نے بیان فرمایا اور مسلمانوں کی چند جماعتوں کی خوب