حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت ابو بکر ؓ نے حضرت علاء بن حضرمیؓکو بحرین کے مرتدین سے لڑنے کے لیے بھیجا۔ اور اس میں یہ قصہ بھی ذکرکیا کہ جن اونٹوں پر لشکر کا زادِ سفر اور خیمے اور پینے کا پانی لداہواتھا وہ سارے اونٹ سامان سمیت بھاگ گئے تھے اور پھر خود ہی سامان سمیت آگئے تھے۔ اور یہ قصہ بھی ذکرکیا کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے پڑائو کی جگہ کے ساتھ ہی صاف شفاف خالص پانی کا حوض پیدا فرمادیا۔ اور یہ بھی ذکرکیا کہ ان حضرات نے مرتدین سے جنگ کی۔ 1 ابنِ کثیر نے یہ قصہ یوں ذکرکیا ہے کہ حضرت علاءؓنے مسلمانوں سے کہا: آئو (بحرین جزیرے کے علاقے) دارین چلتے ہیں تاکہ وہاں جاکر دشمن سے جنگ کریں۔ اس پر سارے مسلمان فوراً تیار ہوگئے۔ وہ ان مسلمانوں کو لے کر چل پڑے یہاں تک کہ ساحلِ سمندر پر پہنچ گئے۔ پہلے تو ان کا خیال ہوا کہ کشتیوں کے ذریعے دارین کا سفر کرلیں، لیکن پھر یہ سوچا کہ سفر کافی لمباہے، کشتیوں میں جاتے جاتے دیر لگ جائے گی، اتنے میں اللہ کے دشمن وہاں سے آگے چلے جائیں گے۔ اور پھر دعاپڑھتے ہوئے اپنے گھوڑے کو لے کر سمندر میں گھس گئے: یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ! یَا حَکِیْمُ! یَا کَرِیْمُ! یَا أَحَدُ! یَا صَمَدُ! یَا حَيُّ! یَا مُحْیِيْ! یَا قَیُّوْمُ! یَا ذَا الْجَلَالِ وَالإِکْرَامِ! لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ یَا رَبَّنَا۔ اور لشکر کو بھی حکم دیا کہ وہ یہ دعا پڑھتے ہوئے سمندر میں گھس جائیں۔ چناںچہ انھوں نے بھی ایساکیا اور اس طرح اللہ کے حکم سے ان سب کو لے کر حضرت علاء ؓخلیج کو پار کر گئے۔ وہ سمندر میں نرم ریت جیسی جگہ پر چل رہے تھے جس پر اتنا کم پانی تھا کہ اونٹوں کے پائوں بھی نہیں ڈوبتے تھے اور وہ پانی گھوڑوں کے گھٹنوں تک بھی نہیں پہنچ رہاتھا۔ یہ سفر کشتی میں ایک رات ایک دن میں طے ہوتا تھا، لیکن حضرت علاءؓ نے سمندر پار کیا اور جزیرہ کے ساحل پر پہنچ گئے۔ وہاں جا کر دشمن سے جنگ کی اور ان پر غلبہ حاصل کیا اور ان کا مالِ غنیمت سمیٹا اور پھر اپنی پہلی جگہ واپس بھی آگئے اور یہ سارے کام صرف ایک دن میں ہوگئے۔ 1 حضرت ابنِ رفیل کہتے ہیں: بَہُرسِیر قریب والا شہر تھا اور دریائے دِجلہ کے پار دور والا شہر تھا۔ جب حضرت سعدؓنے بَہُرسِیر کو فتح کرکے اس میں پڑائو ڈال لیا تو انھوں نے کشتیاں تلاش کیں تاکہ لوگ دریائے دِجلہ پارکرکے دور والے شہر جاسکیں اور اسے فتح کر سکیں، لیکن انھیں کوئی کشتی نہ مل سکی، کیوںکہ ایرانی لوگ تمام کشتیاں سمیٹ کر وہاں سے لے جاچکے تھے۔ چناںچہ مسلمان صفر مہینے کے کئی دن بَہُرسِیر میں ٹھہرے رہے اور حضرت سعد ؓ کے سامنے اس بات کا اظہار کرتے رہے کہ (کشتیوں کے بغیر ہی) دریا پارکرلیاجائے، لیکن شفقت کی وجہ سے وہ مسلمانوں کو ایسا کرنے نہیں دیتے تھے۔ پھر وہاں کے کچھ عجمی کافروں نے آکر انھیں دریا پار کرنے کے لیے وہ گھاٹ بتا دیا جو وادی کی سخت جگہ پہنچا دیتا تھا، لیکن حضرت سعد تردّدمیں پڑگئے اور اس گھاٹ میں سے جانے سے انکار کردیا۔ اتنے میں دریاکا پانی چڑھ گیا۔ پھر حضرت سعد ؓ نے خواب دیکھا کہ دریامیں پانی بہت زیادہ چڑھا ہوا ہے، لیکن مسلمانوں کے گھوڑے دریامیں گھسے ہیں اور پار ہوگئے ہیں۔ اس خواب کو دیکھ کر انھوں نے دریاپار کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا، اور لوگوں کو جمع کرکے بیان کیا اور اللہ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا: