حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت ابوعثمان نہدی کہتے ہیں: جب حضرت مغیرہ ؓ پل پر پہنچے اور پل پار کرکے فارس والوں کے پاس جانا چاہا تو انھیں پہرے داروں نے روکا اور رستم سے ان کے بارے میں اجازت طلب کی اور انھوں نے صحابۂ کرام ؓ کو مرغوب کرنے کے لیے جوشاہی انتظامات کررکھے تھے وہ سارے اسی طرح سے تھے، انھوں نے کوئی تبدیلی نہیں کی تھی۔ ان لوگوں نے تاج اور قیمتی کپڑے جو کہ سونے کے تاروں سے بُنے ہوئے تھے پہنے ہوئے تھے، اور تیر پھینکنے سے تیر جتنی دور جاتاہے اتنی دور تک قالین بچھائے ہوئے تھے، ان پر چل کر ہی آدمی ان کے بادشاہ تک پہنچ سکتاتھا۔بہرحال رستم کے اجازت دینے پر حضرت مغیرہ ؓ وہاں سے آگے چلے، ان کے سر کے بالوں کی چار مینڈھیاں بنی ہوئی تھیں۔ وہ چلتے چلتے جاکر رستم کے ساتھ اس کے تخت اور گدے پر بیٹھ گئے۔ اس پر وہ سب لوگ حضرت مغیرہ ؓ پر جھپٹے اور بڑبڑائے اور جھنجھوڑ کر انھیں تخت سے نیچے اُتار دیا۔ حضرت مغیرہ ؓ نے فرمایا: ہمیں تو یہ خبر پہنچی تھی کہ آپ لوگ بڑے سمجھ دار ہیں، لیکن میں نے آپ لوگوں سے زیادہ بے وقوف قوم کوئی نہیں دیکھی۔ ہم تمام عرب لوگ آپس میں برابر ہیں۔ ہم میں سے کوئی کسی کو اپنا غلام نہیں بناتا، ہاں کسی سے جنگ ہو تو پھر اور بات ہے۔ میرا خیال تھا کہ آپ لوگ بھی آپس میں ہماری طرح رہتے ہوں گے اور آپ لوگوں نے جوکچھ کیا اس سے اچھا تو یہ تھا کہ مجھے پہلے ہی بتادیتے کہ آپ لوگ آپس میں برابر نہیں، بلکہ ایک دوسرے کے ربّ ہیں۔ اگر رستم کے ساتھ بیٹھنا آپ لوگوں کے خیال میں ٹھیک نہیں ہے تو آیندہ ہم ایسا نہیں کریںگے۔ آپ لوگوں کے پاس میں خود نہیں آیا ہوں، آپ لوگوں نے بلایاتو میں آیا ہوں۔ آج مجھے پتا چلا ہے کہ تمہارا نظام ڈھیلاپڑھ چکاہے، اور تم لوگ مغلوب ہونے والے ہو، اور اس طور طریقہ پر اور اس سمجھ پر ملک باقی نہیں ر ہ سکتا۔ یہ باتیں سن کر عام لوگ کہنے لگے: اللہ کی قسم! یہ عربی بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے۔ ان کے چودھری کہنے لگے:اللہ کی قسم! اس نے تو ایسی بات کہی ہے کہ ہمارے غلام ہمیں ہمیشہ اس کی طرف کھینچتے رہیں گے۔ اللہ ہمارے پہلوں کو غارت کرے! کس قدر اَحمق تھے کہ ان عربوں کی بات کو معمولی سمجھتے رہے (آج یہ اتنے زوروں پر آگئے ہیں، انھیں چاہیے تھا کہ ان عربوں کو شروع میں ہی کچل دیتے)۔ اس کے بعد راوی نے باقی حدیث ذکرکی ہے جس میں رستم کے سوالات اور حضرت مغیرہ ؓ کے جوابات کا ذکر ہے۔1دشمن کی تعداد اور ان کے سامان کے زیادہ ہونے کی طرف توجہ نہ کرنا حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں: میں غزوۂ موتہ میں شریک ہوا۔ جب مشرکین ہمارے قریب پہنچے تو ہمیں بہت زیادہ سامان، ہتھیار، گھوڑے، ریشمی کپڑے اور سونا نظر آیا، اور یہ سب کچھ اتنا زیادہ تھا کہ اس کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا تھا۔ اسے دیکھ کر میری تو آنکھیں چندھیا گئیں۔ مجھے یوں متأثر ہوتا ہوا دیکھ کر حضرت ثابت بن اَقرم ؓ نے فرمایا: اے ابوہریرہ! ایسے نظر آرہا ہے کہ تم بہت زیادہ لشکر