حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بہترین زندگی کے با رے میںحضورﷺ کا بیان حضرت علی ؓ فر ماتے ہیں: حضورﷺ نے ایک مر تبہ بیا ن فرمایا، اس میں ارشاد فرمایا: صرف دو آدمیوں کی زندگی بہترین ہے: ایک وہ جو سن کر محفوظ رکھے اور دوسرے وہ عالم جو حق بات کہنے والاہو۔ اے لوگو! آج کل تم لوگ کفا ر سے صلح کے زمانہ میں ہو اور تم بہت تیزی سے آگے کو جارہے ہو، اور تم نے دیکھ لیا کہ دن رات کے گزرنے سے ہر نئی چیز پر انی ہو رہی ہے اور ہر دور والی چیز نزدیک آرہی ہے اور ہر چیز کے وعدے کا وقت آ رہا ہے، چوںکہ جنت میں مقابلہ میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کا میدان بہت لمبا چو ڑا ہے اس لیے وہاں کی تیا ری اچھی طر ح کر لو۔ حضرت مقداد ؓ نے عرض کیا: یا نبی اﷲ! صلح سے کیا مرا د ہے؟ آپ نے فرمایا: (کفا ر سے صلح، جس سے) آزمایش کا دور ختم ہو گیا۔ اور جب اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح تم پر بہت سے کام گڈ مڈ ہو جائیں(اور پتا نہ چلے کہ ٹھیک کو ن سا ہے اورغلط کون سا؟)تو تم قرآن کو لازم پکڑ لو (جسے قرآن ٹھیک کہے اسے تم اختیار کر لو)، کیوںکہ قرآ ن ایسا سفارشی ہے جس کی سفارش قبول کی جاتی ہے اور (انسا ن کی طرف سے) ایسا جھگڑا کر نے والا ہے جس کی بات سچی مانی جاتی ہے۔ جو قرآن کو اپنے آگے رکھے گا (اور اس کے مطا بق زندگی گزارے گا) قرآن اسے جنت کی طرف لے جا ئے گا۔ اور جو اسے پسِ پشت ڈال دے گا اسے دوزخ کی طر ف لے جائے گا۔ اور یہ سب سے بہتر راستہ دکھانے والا ہے۔ یہ دو ٹو ک فیصلہ کر نے والا کلام ہے، لغو اور بے کا ر چیز نہیں ہے۔ اس کا ایک ظاہر ہے اور ایک با طن۔ ظاہر تو اَحکامِ شرعیہ ہیں اور با طن یقین ہے۔ اس کا سمندر بہت گہرا ہے، اس کے عجائب بے شمار ہیں۔ عُلما اس کے علوم سے کبھی سیر نہیں ہو سکتے۔ یہ اﷲ کی مضبوط رسی ہے۔ یہی سیدھا راستہ ہے۔ یہی حق بیان کر نے والا کلام ہے جسے سنتے ہی جنا ت ایک دَم بول اٹھے: {اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا آیت کا نشان یَّہْدِیْ اِلَی الرُّشْدِ فَاٰمَنَّا بِہٖ}1 ( پھر اپنی قوم میں واپس جا کر) انھوں نے کہا کہ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے جو راہ ِراست بتلاتا ہے، سو ہم تو اس پر ایمان لے آئیـ۔ جو قرآن کی بات کہتا ہے وہ سچ کہتا ہے، جو اس پر عمل کر تا ہے اسے اجرو ثواب ملتا ہے، جو اس کے مطابق فیصلہ کر تا ہے وہ عدل کر تا ہے اور جو اس پر عمل کر تا ہے اسے سیدھے راستہ کی ہدایت ملتی ہے۔ اس میں ہدایت کے چراغ ہیں اور یہ حکمت کا مینار ہے اور سیدھے راستہ کی رہنمائی کرتا ہے۔2دنیا کی بے ر غبتی کے با رے میں حضورﷺ کا بیان حضرت حسین بن علی ؓ فرماتے ہیں: میں نے ایک مر تبہ دیکھا کہ حضور ﷺ اپنے صحابہ ؓ میں کھڑے ہو کر بیان فر ما رہے ہیں۔ آپ نے ارشا د فر مایا: ہمارے طرزِ عمل سے ایسا معلوم ہو تا ہے کہ جیسے موت ہمیں نہیں آئے گی بلکہ دوسروں کے مقدر میںموت لکھی ہوئی ہے، او ر حق کو قبول کر کے اس پر عمل کرنا ہما رے ذمہ نہیں ہے بلکہ دوسروں کے ذمہ ہے۔ اور ایسا معلوم ہو تا ہے کہ جن مُر دوں کوہم رخصت کر رہے ہیں وہ چند دن کے لیے سفر میں گئے ہیں اور تھو ڑے ہی دنوں میں ہما رے پا س واپس آجا ئیں گے۔ اور مرنے والو ںکی میراث ہم اس طر ح کھا تے ہیں کہ جیسے اُن کے بعد ہم نے یہا ں ہمیشہ رہنا ہے۔ ہم ہر نصیحت کو بھول گئے ہیں اور آنے والی مصیبتوں سے ہم اپنے آپ کو امن میں سمجھتے ہیں۔ خوش خبری ہو اس آدمی کے لیے جو