حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت عمرؓ نے فرمایا: ہر مسلمان کے لیے کم از کم چھ سورتیں سیکھنا ضروری ہے، دو سورتیں فجر کی نمازکے لیے دو سورتیں مغرب کی نماز کے لیے اور دو سورتیں عِشا کی نماز کے لیے۔1 حضرت مِسْوَر بن مَخْرمہؓفرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: سورۂ بقرہ، سورۂ نساء، سورۂ مائدہ، سورۂ حج اور سورۂ نور ضرور سیکھو، کیوںکہ اﷲ نے جو اَعمال فرض کیے ہیں وہ سب ان سورتوں میں مذکور ہیں۔2 حضرت حارثہ بن مُضَرّب کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓنے ہمیں خط میں یہ لکھا کہ سورۂ نساء، سورۂ اَحزاب اور سورۂ نور سیکھو۔ 3 حضرت عمرؓ نے فرمایا: سورۂ براء ت سیکھو اور اپنی عورتوں کو سورۂ نور سکھاؤ اور انھیں چاندی کے زیور پہناؤ۔4جسے قرآن پڑھنا دشوار ہو وہ کیا کرے نبی کریم ﷺ کے صحابی حضرت ابوریحانہؓ نے فرمایا کہ میں حضورﷺ کی خدمت میںآیا اور آپ کی خدمت میں یہ شکایت کی کہ قرآن میرے ہاتھ سے نکل جاتا ہے یاد نہیں رہتا اور اسے پڑھنا بھی دشوار ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا: ایسے کام کی ذمہ داری مت اٹھاؤ جو تمہارے بس میں نہیں اور تم سجدے زیادہ کرو، یعنی نفل نماز کثرت سے پڑھا کرو۔ حضرت عُمیرہ کہتے ہیں: حضرت ابو ریحانہ ؓعسقلان تشریف لائے تھے اور وہ سجدے بہت زیادہ کیا کرتے تھے۔ 5قرآن کی مشغولی کو ترجیح دینا حضرت قَرَظہ بن کعب ؓ فرماتے ہیں: ہم عراق کے ارادے سے (مدینہ سے) نکلے تو حضرت عمر بن خطّابؓ بھی ہمارے ساتھ حِراء مقام تک چلے (جو مدینہ سے تین میل کے فاصلے پر ہے)۔ پھر آپ نے وضو کرکے فرمایا: کیا آپ لوگ جانتے ہیںکہ میں آپ لوگوں کے ساتھ کیوں چلا؟ ساتھیوں نے کہا: جی ہاں، ہم لوگ حضورﷺ کے صحابہ ہیںاس لیے آپ ہمارے ساتھ چلے ہیں۔ حضرت عمر نے فرمایا: (یہ وجہ تو خیر ہے ہی، لیکن اصل میں میں آپ لوگوں کو ایک خاص بات کہنا چاہتا تھا اور وہ یہ ہے کہ) تم لوگ ایسے علاقہ میں جارہے ہو کہ وہاں کے لوگ شہد کی مکھی جیسی دھیمی آواز سے قرآن پڑھتے ہیں۔ ان کے سامنے احادیث بیان نہ کرنا ورنہ وہ (قرآن کو چھوڑ کر) تمہارے ساتھ (احادیث میں) مشغول ہوجائیں گے، بلکہ قرآن کو (احادیث سے) الگ تھلگ رکھو اور حضورﷺ کی طرف سے روایت کم کرو اور اب جاؤ میں تمہارے ساتھ (اجر میں) شریک ہوں۔ جب حضرت قرظہ (عراق) پہنچے تو لوگوں نے کہا: آپ ہمیں حدیثیں سنائیں۔فرمایا: حضرت ابنِ خطّاب ؓ نے ہمیں اس کام سے روکا ہے۔1 ابنِ عبدالبر کی ایک روایت میں یہ ہے: ان کو احادیث نہ سنانا ورنہ تم ان کو ان ہی میں مشغول کردوگے اور قرآن عمدہ طریقہ سے پڑھنا۔ دوسری روایت میں یہ ہے کہ پھر حضرت عمر ؓ نے ہم سے فرمایا: کیا تم جانتے ہو میں آپ لوگوں کے ساتھ کیوں نکلا؟ ہم نے کہا: آپ ہمیں رخصت کرنا چاہتے ہیں اور ہمارا اکرام کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے فرمایا: یہ تو ہے ہی، لیکن میں ایک اور ضرورت کی