حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور اسی طرح حضرت انس ؓ کی روایت سے ’’مسنداحمد‘‘ میں اور حضرت علقمہ بن وقاص لیثی ؓ کی روایت سے ابنِ مردویہ کی کتاب میں حضرت سعد بن معاذ ؓ کا یہ قول گزر چکا ہے کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو یہ شرف بخشا اور آپ پر کتاب نازل فرمائی! نہ تو میں کبھی اس راستہ پر چلاہوں اور نہ مجھے اس کا کچھ علم ہے، لیکن آپ اگر یمن کے برک ا لغماد تک جائیں گے تو ہم بھی آپ کے ساتھ ساتھ وہاں تک ضرور جائیں گے اور ہم ان لوگوں کی طرح نہیں ہوںگے جنھوں نے حضرت موسیٰ ؑ سے کہہ دیاتھا: {اِذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلاَ اِنَّا ھٰھُنَا قٰـعِدُوْنَ آیت کا نشان} آپ جائیں اور آپ کاربّ جائے، آپ دونوں لڑائی کریں ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔ بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں: اِذْھَبْ أَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا إِنَّا مَعَکُمْ مُتَّبِعُوْنَ۔ آپ بھی جائیں اور آپ کا ربّ بھی جائے، آپ دونوں لڑائی کریں اور ہم بھی آپ کے ساتھ ساتھ ہیں۔ ہوسکتاہے کہ آپ تو کسی اور کام کے ارادے سے چلے ہوں اور اب اللہ تعالیٰ کچھ اور کام کروانا چاہتے ہوں۔ یعنی آپ تو قافلہ ابوسفیان کے مقابلے کے ارادے سے چلے تھے، لیکن اب اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ کافروں کے اس لشکر سے لڑاجائے۔ تو جو اللہ تعالیٰ کرواناچاہتے ہیں آپ اس کو دیکھیں اور اسے کریں۔ اس لیے اب (ہماری طرف سے آپ کو ہر طرح کا پورا اختیارہے) آپ جس سے چاہیں تعلقات بنائیں اور جس سے چاہیں تعلقات ختم کردیں، اور جس سے چاہیں دشمنی رکھیں اور جس سے چاہیں صلح کرلیں، اور ہمارا مال جتنا چاہیں لے لیں۔ چناںچہ حضرت سعد ؓ کے اس جواب پر یہ قرآن نازل ہوا: {کَمَا اَخْرَجَکَ رَبُّکَ مِنْ بَیْتِکَ بِالْحَقِّص وَاِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَکـٰـرِھُوْنَ آیت کا نشان} 1 جیسا کہ آپ کے ربّ نے آپ کے گھر (اور بستی) سے مصلحت کے ساتھ آپ کو (بدر کی طرف) روانہ کیا اور مسلمانوں کی ایک جماعت اس کو گراں سمجھتی تھی۔ اُموی نے اپنی ’’مغازی‘‘ میں اس حدیث کو ذکرکیا ہے، اور اس میں یہ مضمون مزید ہے کہ آپ ہمارا جتنا مال چاہیں لے لیں اور جتنا چاہیں ہمیں دے دیں، اور جو مال آپ ہم سے لیں گے وہ ہمیں اس سے زیادہ محبوب ہوگا جو آپ ہمارے پاس چھوڑدیںگے، اور آپ جو حکم دیں گے ہمارا معاملہ اس حکم کے تابع ہوگا۔اللہ پر توکّل کرنا اور باطل والوں کو جھوٹا سمجھنا حضرت عبداللہ بن عوف بن اَحمر کہتے ہیں: جب حضرت علی بن ابی طالب ؓ اَنبار شہر سے نہروان والوں کی طرف جانے لگے تو مسافر بن عوف بن اَحمر نے ان سے کہا: اے امیرالمؤمنین! آپ اس گھڑی میں نہ چلیں، بلکہ جب دن چڑھے کو تین گھڑیاں گزرجائیں پھر یہاں سے چلیں۔ حضرت علی نے پوچھا: کیوں؟ اس نے کہا: اگر آپ اس گھڑی میں چلیں گے تو آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو