حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تلاش کیا تھا، کیوںکہ وہ جانتے نہیں تھے تو انھوں نے اﷲ تعالیٰ سے سوال کیا تھا جیسے کہ قرآن میں ہے: {اِنِّیْ ذَاھِبٌ اِلٰی رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ آیت کا نشان}2 میں اپنے ربّ کی طرف چلا جاتا ہوں وہ مجھ کو (اچھی جگہ) پہنچا ہی دے گا۔ میرے بعد ان چار آدمیوں سے علم حاصل کرنا۔ اگر ان میں سے کسی سے نہ ملے توپھر ممتاز اور عمدہ لوگوں سے علم کے بارے میں پوچھنا۔ وہ چار یہ ہیں: حضرت عبداﷲ بن مسعود، حضرت عبداﷲ بن سلام، حضرت سلمان اور حضر ت عویمر ابو الدرداء ؓ۔ اور حکیم آدمی کی لغزش سے اور منافق کے فیصلے سے بچ کر رہنا۔ میں نے پوچھا: مجھے کس طرح حکیم آدمی کی لغزش کا پتا چل سکتا ہے؟ حضرت معاذؓ نے فرمایا: وہ گمراہی کا کلمہ جسے شیطان کسی آدمی کی زبان پر اس طرح جاری کردیتا ہے جسے وہ بے سوچے سمجھے فوراً بول دیتا ہے۔ اور منافق بھی کبھی حق بات کہہ دیتا ہے۔ لہٰذا علم جہاں سے بھی آئے تم اسے لے لو، کیوںکہ حق بات میں نور ہوتا ہے۔ اور جن باتوں کا حق اور باطل ہونا واضح نہ ہو ان سے بچو۔1 حضرت عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ ہم لوگ یمن میں رہا کرتے تھے۔ وہاں حضرت معاذ بن جبلؓ آئے اور فرمایا: اے یمن والو! اسلام لے آؤ سلامتی پالوگے۔ میں اﷲ کے رسول ﷺ کی طرف سے تمہاری طرف قاصد بن کر آیا ہوں۔ حضرت عمرو کہتے ہیں کہ میرے دل میں ان کی محبت ایسی بیٹھی کہ میں ان کے انتقال تک ان سے جدا نہیں ہوا، ان کے ساتھ ہی رہا۔ جب ان کے انتقال کا وقت آیا تو میں رونے لگا۔ حضرت معاذؓ نے فرمایا:کیوں روتے ہو؟ میں نے کہا: اس علم کی وجہ سے روتا ہوں جو آپ کے ساتھ چلا جائے گا۔ حضرت معاذ ؓ نے فرمایا: نہیں، علم اور ایمان قیامت تک دنیا میں رہیں گے۔ آگے اور حدیث ذکر کی۔2ایمان اور علم و عمل کو بہ یک وقت اکٹھے سیکھنا حضرت ابنِ عمرؓ فرماتے ہیں: میں نے اپنی زندگی کا بڑا عرصہ اس طرح گذارا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک قرآن سے پہلے ایمان سیکھتا تھا۔ اور جو بھی سورت حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوتی تھی ہر ایک اس کے حلال و حرام ایسے سیکھتا تھا جیسے تم قرآن کو سیکھتے ہو اور جہاں وقف کرنا مناسب ہوتا تھا اس کو بھی سیکھتا تھا۔ پھر اب میں ایسے لوگوں کو دیکھ رہا ہوں جو ایمان سے پہلے قرآن حاصل کرلیتے ہیں، اور سورۂ فاتحہ شروع سے آخر تک ساری پڑھ لیتے ہیں، اور انھیں پتا نہیں چلتا کہ سورۂ فاتحہ کن کاموں کا حکم دے رہی ہے اور کن کاموں سے روک رہی ہے اور اس سورت میں کون سی آیت ایسی ہے جہاں جا کر رک جانا چاہیے۔ اور سورۂ فاتحہ کو ردّی کھجور کی طرح بکھیر دیتا ہے، یعنی جلدی جلدی پڑھتا ہے۔ 1 حضرت جُندب بن عبد اﷲؓفرماتے تھے: ہم نو عمر لڑکے حضورﷺ کے ساتھ ہوا کرتے تھے۔ پہلے ہم نے ایمان سیکھا، پھر ہم نے قرآن سیکھا، جس سے ہمارا ایمان اور زیادہ ہوگیا۔2