حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت اُسامہ بن عمیرؓ فرماتے ہیں کہ بعض دفعہ نماز کھڑی ہوجاتی تھی، اور کوئی آدمی حضور ﷺ سے اپنی ضرورت کی بات کرنے لگ جاتا، اور حضورﷺ کے اور قبلہ کے درمیان کھڑا ہوجاتا، اور کھڑے ہوکر حضورﷺ سے باتیں کرتا رہتا۔ میں بعض دفعہ دیکھتا کہ حضور ﷺ کے زیادہ دیر کھڑے رہنے کی وجہ سے کچھ لوگ اونگھنے لگتے۔2 حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ بعض دفعہ عشا کی نماز کھڑی ہو جاتی تو حضور کسی آدمی کے ساتھ کھڑے ہو کر بات کرنے لگے جاتے (زیادہ دیر ہو جانے کی وجہ سے) بہت سے صحابہ سوجاتے پھر وہ نماز کے لیے اٹھتے۔ 3 حضرت عروہفرماتے ہیں کہ مؤذن جب اِقامت کہہ دیتا اور لوگ چپ ہوجاتے تو اس کے بعد حضورﷺ سے کوئی آدمی ضرورت کی بات کرنے لگتا۔ حضورﷺ اس کی ضرورت پوری کرتے۔ اور حضرت انس بن مالکؓ نے بتایا کہ حضورﷺ کی ایک چھڑی تھی جس پر آپ ٹیک لگا لیا کرتے تھے۔4 حضرت انس ؓ فرماتے ہیں: حضورﷺ بہت رحم دل تھے۔ جو بھی آپ کے پاس آتا (اور سوال کرتا اور آپ کے پاس کچھ نہ ہوتا) تو اس سے آپ وعدہ کرلیتے (کہ جب کچھ آئے گا تو تمھیں ضرور دوں گا) اور اگر کچھ پاس ہوتا تو اسی وقت اسے دے دیتے۔ ایک مرتبہ نماز کی اِقامت ہوگئی، ایک دیہاتی نے آکر آپ کے کپڑے کو پکڑ لیا اور کہا کہ میری تھوڑی سی ضرورت باقی رہ گئی ہے اور مجھے ڈر ہے کہ میں اسے بھول نہ جاؤں گا۔ چناںچہ حضورﷺ اس کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ جب اس کی ضرورت سے فارغ ہوئے تو پھر آگے بڑھ کر نماز پڑھائی۔1 حضرت ابو عثمان نہدیکہتے ہیں کہ بعض دفعہ نماز کھڑی ہوجاتی تھی پھر حضرت عمر ؓ کے سامنے آکر کوئی آدمی ان سے بات شروع کردیتا، تو بعض دفعہ حضرت عمرؓ کے زیادہ کھڑے رہنے کی وجہ سے ہم میں سے کچھ آدمی بیٹھ جاتے۔ 2 حضرت موسیٰ بن طلحہ کہتے ہیںکہ حضرت عثمان بن عفان ؓ منبر پر تھے اور مؤذّن نماز کے لیے اِقامت کہہ رہاتھا۔ اس وقت میں نے سنا کہ وہ لوگوں سے حالات اور چیزوں کے بھاؤ پوچھ رہے تھے۔3 ’’صفیں سیدھی کرنے‘‘ کے عنوان میں یہ قصّہ گذر چکا ہے کہ حضرت مالک کہتے ہیں کہ میں حضرت عثمان ؓ کے ساتھ تھا اوران سے بات کررہا تھا کہ اتنے میں نماز کھڑی ہوگئی۔نبی کریمﷺ اور صحابۂ کرامؓکے زمانے میں اِمامت اور اِقتدا صلحِ حدیبیہ اور فتحِ مکہ کے بارے میں حضرت عکرمہ کی ایک لمبی حدیث ہے۔ اس میں یہ ہے کہ حضرت عباس ؓ نے حضرت ابو سفیان ؓ سے کہا:اے ابو سفیان! مسلمان ہوجاؤ سلامتی پاؤ گے۔ اس پر حضرت ابوسفیان ؓ مسلمان ہوگئے۔ پھر حضرت عباس ؓ انھیں اپنی قیام گاہ پر لے گئے۔ جب صبح ہوئی تو لوگ وضو کے لیے بھاگنے دوڑنے لگے۔ حضرت ابو سفیان نے یہ منظر دیکھ کر کہا: اے ابوالفضل!