حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
سحری کے وقت مسجد میں گئے تو انھوں نے دیکھا کہ کچھ لوگ مسجد کے اگلے حصے میں نماز پڑھ رہے ہیں، تو فرمایا: ربِّ کعبہ کی قسم! یہ لوگ تو ریا کار ہیں۔ انھیں ڈراؤ، جو انھیں ڈرائے گا وہ اﷲاور رسول ﷺ کی اطاعت کرنے والا شمار ہوگا۔ چناںچہ کچھ لوگ ان کے پاس گئے اور انھیں باہر نکال دیا، تو حضرت حابس ؓ نے فرمایا کہ فرشتے سحری کے وقت مسجد کے اگلے حصے میں نماز پڑھتے ہیں۔1 حضرت مُرَّہ ہمدانی کہتے ہیں: میں نے اپنے دل میں سوچا کہ میں کوفہ کی مسجد کے ہر ستون کے پیچھے دورکعت نماز پڑھوں گا۔ میں نماز پڑھ رہا تھا کہ اتنے میں حضرت ابنِ مسعود ؓ مسجد میں آگئے۔ میں اپنی یہ بات ان کو بتانے گیا تو ایک آدمی مجھ سے پہلے ان کے پاس چلا گیا اور میں جو کچھ کررہا تھا وہ اس آدمی نے ان کو بتادیا۔ اس پر حضرت ابنِ مسعود ؓ نے فرمایا: اگر اسے یہ معلوم ہوتا کہ اﷲ تعالیٰ سب سے قریبی ستون کے پاس بھی ہیں تو نماز پوری کرنے تک اس ستون سے آگے نہ بڑھتا (یعنی مسجد کے ہر ستون کے پاس نماز پڑھنا کوئی خاص ثواب کا کام نہیں ہے، ثواب میں نماز کے سارے ستون برابر ہیں)۔2نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہؓ کا اذان کا اہتمام کرنا حضرت ابو عمیر بن انس اپنے انصاری چچوں سے نقل کرتے ہیں کہ حضورﷺ کو نماز کے بارے میں بڑا فکر ہوا کہ اس کے لیے لوگوں کو کیسے جمع کریں۔ کسی نے تجویر پیش کی کہ نماز کا وقت شروع ہونے پر ایک جھنڈا کھڑاکردیا کریں۔ لوگ جب جھنڈے کو دیکھا کریں گے تو ایک دوسرے کو بتا دیا کریں گے، لیکن آپ ﷺ کو یہ رائے پسند نہ آئی۔ پھر کسی نے یہودیوں کے بِگل کا تذکرہ کیا، آپ کو یہ بھی پسند نہ آیا اور فرمایا: یہ تو یہودیوں کا کام ہے۔ پھر کسی نے آپ سے گھنٹے کا ذکر کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہ تو عیسائیوں کا کام ہے۔ حضور ﷺ کی زیادہ فکر کی وجہ سے حضرت عبداﷲ بن زیدؓکو بہت زیادہ فکر ہوگیا، وہ گھر گئے تو انھیں خواب میں اذان دکھائی گئی۔ آگے اور حدیث بھی ذکر کی۔1 حضرت عبداﷲ بن زیدؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ کو نماز کی اطلاع دینے کے بارے میں فکر ہوا۔ جب نماز کا وقت آتا تو حضورﷺ کسی آدمی کو اوپر چڑھادیتے جو ہاتھ سے اشارہ کرتا۔ جو اشارہ دیکھ لیتا وہ آجاتا اور جو نہ دیکھتا اسے نماز کا پتا نہ چلتا۔ اس کا حضورﷺ کو بہت زیادہ فکر تھا۔ بعض صحابہ ؓ نے آپ کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اﷲ! آپ اگر (نماز کے وقت) گھنٹہ بجانے کا حکم دے دیں تو اچھا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ تو عیسائیوں کا کام ہے۔ پھر انھوں نے عرض کیا: اگر آپ بِگل بجانے کا حکم دے دیں تو اچھا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، یہ تو یہودیوں کا کام ہے۔ حضرت عبداﷲؓکہتے ہیں کہ میں اپنے گھر واپس گیا اور حضورﷺ کو اس بارے میں فکر مند دیکھنے کی وجہ سے میں بہت پریشان تھا۔ رات کو فجر سے پہلے مجھے کچھ اُونگھ آئی۔ میں نیند اوربیداری کی درمیانی حالت میں تھا، میں نے ایک آدمی کو دیکھا جس نے دو سبز کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ وہ مسجد کی چھت پر کھڑا ہوا اور دونوں کانوں میں انگلیاں ڈال کر اذان دینے لگا۔ 2