حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اجتماعی دعا کرنا اور اونچی آواز سے دعا کرنا اور آمین کہنا حضرت قیس مدنی کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت زید بن ثابت ؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر کسی چیز کے بارے میں پوچھا۔ انھوں نے فرمایا: تم جاکر یہ بات حضرت ابوہریرہؓ سے پوچھو، کیوںکہ ایک مرتبہ میں، حضرت ابوہریرہ اور فلاں آدمی ہم تینوں مسجد میں دعا کررہے تھے، اور اپنے ربّ کا ذکرکررہے تھے کہ اتنے میں حضورﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور ہمارے پاس بیٹھ گئے تو ہم خاموش ہوگئے۔ پھر فرمایا: جو تم کررہے تھے اسے کرتے رہو۔ چناںچہ میں نے اور میرے ساتھی نے حضرت ابوہریرہ سے پہلے دعاکی اور حضورﷺ ہماری دعا پر آمین کہتے رہے۔ پھر حضرت ابوہریرہ نے یہ دعا کی: اے اللہ! میرے ان دوساتھیوں نے جو کچھ تجھ سے مانگا میں وہ بھی تجھ سے مانگتاہوں اور ایسا علم بھی مانگتاہوں جو کبھی نہ بھولے۔ حضورﷺ نے فرمایا: آمین۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم بھی اللہ سے وہ علم مانگتے ہیں جو کبھی نہ بھولے۔ حضورﷺ نے فرمایا: یہ دَوسی نوجوان (یعنی حضرت ابوہریرہؓ) تم دونوں سے آگے نکل گئے۔2 حضرت جامع بن شداد کے ایک رشتہ دار کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کو فرماتے ہوئے سنا کہ تین دعائیں ایسی ہیں کہ جب میں وہ مانگوں تو تم ان پر آمین کہنا۔اے اللہ! میں کمزور ہوں مجھے قوت عطافرما۔ اے اللہ! میں سخت ہوں مجھے نرم کردے۔ اے اللہ! میں کنجوس ہوں مجھے سخی بنادے۔3 حضرت سائب بن یزید کہتے ہیں: میں نے رَمادَہ قحط سالی کے زمانے میں حضرت عمر بن خطاب ؓ کو دیکھا کہ وہ صبح کے وقت عام سادہ سے کپڑے پہنے ہوئے عاجز اور مسکین بن کر جارہے ہیں، اور ان کے جسم پر ایک چھوٹی سی چادر پڑی ہوئی ہے جو گھٹنوں تک مشکل سے پہنچ رہی ہے۔ اونچی آواز سے اللہ سے معافی مانگ رہے ہیں اور ان کی آنکھوں سے رُخسار پر آنسو بہہ رہے ہیںاور ان کے دائیں طرف حضرت عباس بن عبدالمطّلب ؓ ہیں۔ اس دن انھوں نے قبلہ کی طرف منہ کرکے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاکر بہت گڑگڑاکر دعامانگی، لوگ بھی ان کے ساتھ دعا مانگ رہے تھے۔ پھرحضرت عباس کے ہاتھ کو پکڑ کر کہا:اے اللہ! ہم تیرے رسول ﷺ کے چچا کو تیرے سامنے سفارشی بناتے ہیں۔ پھر حضرت عباس بہت دیر تک حضرت عمر کے پہلو میں کھڑے ہوکر دعامانگتے رہے، ان کی آنکھوں سے بھی آنسو بہہ رہے تھے۔1 حضرت ابواُسید کے آزادکردہ غلام حضرت ابوسعید کہتے ہیں: حضرت عمر بن خطاب ؓ عِشا کے بعد مسجد کا چکر لگاتے اور اس میں جو آدمی بھی نظر آتا اسے مسجد سے نکال دیتے۔ جسے کھڑاہوا نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے اسے رہنے دیتے۔ ایک رات ان کا حضور ﷺ کے چند صحابہؓ پر گزرہوا جن میں حضرت اُبی بن کعب ؓ بھی تھے۔ حضرت عمر نے پوچھا:یہ لوگ کون ہیں؟ حضرت اُبی نے کہا: اے امیرالمؤمنین! آپ کے گھر کے چند آدمی ہیں۔ فرمایا: نماز کے بعد تم لوگ اب تک یہاں کیوں بیٹھے ہوئے ہو؟ حضرت اُبی نے فرمایا: