حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بیہقی کی روایت میں ہے کہ اس نوجوان نے کہا: اے چچا جان! حضرت عمرکو جاکر میرا سلام کہو اور ان سے پوچھو کہ جو اپنے ربّ کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرے اس کو کیا بدلہ ملے گا؟ اس روایت کے آخر میں ہے کہ حضرت عمر ؓ نے اس کی قبر پر کھڑے ہو کر کہا: تمہارے لیے دوباغ ہیں، تمہارے لیے دو باغ ہیں۔ حضرت محمد بن حِمْیَر کہتے ہیں: ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطّاب ؓکا بقیع الغرقد قبرستان پر گزر ہوا تو انھوںنے فرمایا: السلام علیکم۔ اے قبرستان والو! ہمارے ہاں کی خبریں تو یہ ہیں کہ تمہاری عورتوں نے اور شادی کرلی، تمہارے گھروں میں دوسرے لوگ رہنے لگ گئے، تمہارا سارامال تقسیم کردیاگیا۔ جواب میں غیب سے یہ آواز آئی کہ ہمارے ہاں کی خبریں یہ ہیں کہ ہم نے جو نیک اعمال آگے بھیجے تھے ان کا اجر وثواب ہم نے پالیا اور جو مال ہم نے اللہ کے لیے دوسروں پر خرچ کیا اس کا ہمیں یہاں نفع مل گیا اور جو مال ہم پیچھے چھوڑ آئے اتنا ہمیں نقصان ہوا۔ 3صحابہ ٔ کرام ؓ کا عذاب میں مبتلا لوگوں کے عذاب کو دیکھنا حضرت ابنِ عمر ؓ فرماتے ہیں: ایک دفعہ میں میدانِ بدر کے کنارے چلا جارہاتھا کہ اتنے میں ایک آدمی ایک گڑھے سے باہر نکلا۔ اس کی گردن میں زنجیر پڑی ہوئی تھی، اس نے مجھے پکار کر کہا: اے عبداللہ! مجھے پانی پلادے۔ اے عبداللہ! مجھے پانی پلادے۔ اے عبداللہ! مجھے پانی پلادے۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ اسے میرا نام معلوم تھا یا اس نے ویسے ہی عربوں کے دستور کے مطابق عبداللہ کہہ کر پکارا اور نام معلوم نہیں تھا۔ پھر اسی گڑھے سے ایک اور آدمی باہر نکلا اس کے ہاتھ میں کوڑا تھا۔ اس نے مجھے پکار کر کہا: اے عبداللہ! اسے پانی نہ پلانا کیوںکہ یہ کافر ہے۔ پھر اسے کوڑا مارا جس پر وہ آدمی اپنے گڑھے میں واپس چلاگیا۔ میں جلدی سے حضور ﷺ کی خدمت میں گیا اور سارا واقعہ حضورﷺ کو بتایا۔ آپﷺ نے مجھ سے فرمایا: کیا تم نے اسے دیکھا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ حضورﷺ نے فرمایا: یہ اللہ کا دشمن ابوجہل تھا اور اسے قیامت کے دن تک یوںہی عذاب ہوتارہے گا۔ 1صحابۂ کرامؓ کا مرنے کے بعد باتیں کرنا حضرت سعید بن مسیب کہتے ہیں: قبیلۂ بنو حارث بن خزرج کے حضرت زید بن خارجہ انصاری ؓ کا حضرت عثمان بن عفان ؓ کے زمانہ میں انتقال ہوا تو لوگوں نے ان پر کپڑا ڈال دیا۔ پھر لوگوں نے ان کے سینہ میں آواز کی حرکت سنی، پھر وہ بول پڑے اور کہنے لگے: حضرت احمد، حضرت احمد (ﷺ) کا نام لوح محفوظ میں ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے سچ کہا، سچ کہا۔ وہ اپنی ذات کے بارے میں کمزور تھے، لیکن اللہ کے معاملے میں طاقت ور تھے۔ یہ سب کچھ لوحِ محفوظ میں ہے۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے سچ کہا، سچ کہا۔ وہ طاقت ور اور امانت دار تھے۔ یہ بات بھی لوحِ محفوظ میں ہے۔ حضرت عثمان بن عفان ؓ نے سچ کہا، سچ کہا۔ وہ ان تینوں حضرات کے طریقہ پر ہیں۔ امن و امان کے چار سال گزر گئے دو سال رہ گئے ہیں، پھر فتنے آئیں گے اور زور دار آدمی کمزور کو کھا جائے گا اور