حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
انسانی مشاہدوں، وقتی محسوسات اور مادّی تجربوں کو چھوڑدیتے تھے، اورایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا انھوں نے غیبی اُمور کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا اور اپنے مشاہدات کو وہ جھٹلادیا کرتے تھے۔ایمان کی عظمت حضرت ابوہریرہ ؓ فر ماتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ حضورﷺ کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے، اور چند ساتھیوں سمیت حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ بھی ہمارے ساتھ تھے۔ حضورﷺ ہمارے درمیان میں سے اٹھ کر چلے گئے۔ آپ کو واپس آنے میں کافی دیر ہوگئی۔ ہمیں اس بات کا ڈر ہوا کہ ہم حضورﷺ کے ساتھ نہیں ہیں آپ اکیلے گئے ہیں۔ کہیں اس اکیلے پن میں آپ کو کسی دشمن کی طرف سے کوئی تکلیف نہ پہنچ جائے۔ ا س وجہ سے ہم سب گھبرا کر کھڑے ہوگئے۔ سب سے پہلے میں گھبرا کر اٹھا اور حضورﷺ کو تلاش کرنے نکلا۔ چلتے چلتے انصار کے قبیلہ بنو نجّار کے ایک باغ کے پاس پہنچا اور میں نے اس باغ کا چکر لگایا تاکہ مجھے باغ کا کوئی دروازہ مل جائے، لیکن مجھے کوئی دروازہ نہ ملا۔ پھر مجھے ایک نالی نظر آئی جو باہر کے ایک کنویں سے باغ کے اندر جارہی تھی۔ میں سمٹ کر (اس نالی سے) اندر چلاگیا تو دیکھا کہ حضورﷺ وہاں موجود تھے۔ حضورﷺ نے فرمایا: تم ابوہریرہ ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں یارسول اللہ! حضورﷺ نے فرمایا: تمھیں کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا: آپ ہمارے درمیان تشریف فرما تھے پھر اٹھ کر چلے گئے۔ پھر کافی دیر گزر گئی لیکن آپ واپس نہ آئے۔ ہمیں اس بات کا ڈر ہوا کہ آپ اکیلے ہیں ہم میں سے کوئی آپ کے ساتھ نہیں، تو اس اکیلے پن میں آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچادے۔ اس خیال سے ہم سب گھبرا گئے۔ سب سے پہلے میں گھبرا کر وہاں سے اٹھا اور آپ کو ڈھونڈنے لگ گیا۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے میں اس باغ تک پہنچ گیا۔ (باغ کادروازہ مجھے ملا نہیں اس لیے) میں لومڑی کی طرح سکڑکر (نالی سے) اندر آگیا ہوں اور وہ تمام لوگ میرے پیچھے پیچھے آرہے ہیں۔ حضورﷺ نے مجھے اپنے دو جوتے (نشانی کے طور پر) دے کر فرمایا: میرے یہ دونوں جوتے لے جائو، اور اس باغ کے باہر تمھیں جویہ گواہی دیتا ہوا ملے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ دل سے اس پر یقین کررہاہو، ا سے جنت کی بشارت دے دینا۔ مجھے سب سے پہلے حضرت عمر ؓ ملے۔ انھوں نے پوچھا: اے ابوہریرہ! یہ جوتے کیا ہیں؟ میں نے کہا: یہ دونوں جوتے حضورﷺ کے ہیں، جنھیں دے کر حضورﷺ نے مجھے بھیجا ہے کہ مجھے جو بھی یہ گواہی دیتاہوا ملے کہ اللہ کے سو ا کوئی معبود نہیں اور دل سے اس پر یقین کررہا ہو، میںاسے جنت کی بشارت دے دوں۔ حضرت عمر نے میرے سینے پر (اس زور سے) مارا کہ میں سُر ین کے بل زمین پرگرپڑا۔ اور حضرت عمر نے کہا: اے ابوہریرہ! واپس جائو۔ میں حضورﷺ کی خدمت میں واپس گیا اور روکر فریاد کر نے لگا۔ حضرت عمر میرے پیچھے پیچھے آرہے تھے۔ حضور ﷺ نے فرمایا: اے ابوہریرہ! تمھیں کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا: مجھے عمر باہر ملے تھے، جو بشارت دے کر آپ نے مجھے بھیجا تھا وہ میں نے انھیں سنائی تو انھوں نے میرے سینے پر اس زور سے دوہتھڑ مارا کہ میں