حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہواتھا، تو بادشاہ کے قاصد نے قلعہ کے اوپر سے جھانک کر ہمیں کہا:بادشاہ آپ لوگوں سے یہ کہہ رہاہے: کیا آپ لوگ اس شرط پر صلح کرنے کے لیے تیار ہیں کہ دریائے دِجلہ کا جو کنارہ ہماری طرف ہے وہاں سے لے کر ہمارے پہاڑ تک کی جگہ ہماری ہو اور دوسرے کنارے سے لے کر تمہارے پہاڑ تک کی جگہ تمہاری ہو؟ کیا ابھی تک تمہارا پیٹ نہیں بھرا؟ اللہ کبھی تمہارا پیٹ نہ بھرے! تو حضرت ابومفزّر اَسود بن قطبہؓلوگوں سے آگے بڑھے اور اللہ نے ان سے ایسی بات کہلوادی جس کا نہ انھیں پتا چلا کہ انھوں نے کیا کہا ہے اور نہ ہمیں۔ وہ قاصد واپس چلاگیا اور ہم نے دیکھا کہ وہ ٹکڑیاں بن کر بہرسیر سے مدائن شہرجارہے ہیں۔ ہم نے کہا: اے ابوالمفزر! آپ نے اسے کیا کہاتھا؟ انھوں نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے حضرت محمد ﷺ کو حق دے کر بھیجا ہے! مجھے کچھ پتا نہیں میں نے کیا کہا تھا۔ مجھے تو بس اتنا پتا ہے کہ اس وقت مجھ پر خاص قسم کا سکینہ نازل ہواتھا اور مجھے اُمید ہے کہ مجھ سے خیر کی بات کہلوائی گئی ہے۔ لوگ باری باری آکر ان سے یہ بات پوچھتے رہے یہاں تک کہ حضرت سعدؓنے اس بارے میں سنا۔ وہ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: اے ابومفزر! تم نے کیا کہاتھا؟ اللہ کی قسم! وہ تو سارے بھاگ رہے ہیں۔ حضرت ابومفزر! نے انھیں بھی وہی جواب دیا جو ہمیں دیا تھا۔ پھر حضرت سعد نے لوگوں میں (قلعہ پر حملہ کرنے کا) اعلان کرایا اور ان کو لے کر صف آرا ہوگئے اور منجنیقیں قلعہ پر مسلسل پتھر پھینکنے لگیں۔اس پر قلعہ کی دیوار پر کوئی آدمی ظاہر نہ ہوا اور نہ ہی شہر میں سے نکل کر کوئی باہر آیا۔ بس ایک آدمی امان پکارتا ہوا باہر آیا، ہم نے اسے امان دی۔ اس نے کہا: اب اس شہر میں کوئی نہیں رہاتو تم کیوں رکے ہوئے ہو؟ اس پر لشکر والے دیوار پھاند کر اندر چلے گئے اور ہم نے اسے فتح کرلیا۔ہمیں اس میں نہ کوئی چیز ملی اور نہ کوئی انسان۔ بس شہر سے باہر چند آدمی ملے جنھیں ہم نے قید کرلیا۔ ہم نے ان لوگوں سے اور امن لینے والے آدمی سے پوچھا کہ یہ سب لوگ کیوں بھاگ گئے؟ انھوں نے کہا: بادشاہ نے قاصد بھیجا تھا جس نے آپ لوگوں کو صلح کی پیش کش کی، آپ لوگوں نے اسے یہ جواب دیا کہ ہماری اور تمہاری صلح تب ہوگی جب ہم اَفْرِیزین شہر کے شہد کو کوثی شہر کے ترنج کے ساتھ ملاکر کھالیں گے۔ اس پر بادشاہ نے کہا: ہائے ہماری بربادی! غور سے سنو! فرشتے ان کی زبانوں پر بولتے ہیں اور عربوں کی طرف سے ہمیں جواب دیتے ہیں۔ اللہ کی قسم! اگر فرشتہ اس آدمی کی زبان پر نہیں بھی بولاتو بھی یہ جواب ایساہے جو اللہ کی طرف سے اس کی زبان پر جاری کیا گیا ہے، تاکہ ہم ان کے مقابلہ سے باز آجائیں۔ اس پر سارے شہروالے دُور والے شہرمدائن چلے گئے۔ 1صحابۂ کرام ؓ کے قرآن کو سننے کے لیے فرشتوں کا اُترنا حضرت ابوسعید خُدری ؓ فرماتے ہیں: ایک رات حضرت اُسید بن حُضیرؓ اپنے کھلیان میں قرآن پڑھ رہے تھے کہ اتنے میں ان کا گھوڑا بدکنے لگا۔ وہ رک گئے تو گھوڑا بھی رک گیا۔ انھوں نے دوبارہ پڑھنا شروع کیا تو وہ پھر بدکنے لگا۔ وہ رک گئے تو گھوڑا بھی رک گیا۔