حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لوگوں کو کبھی کوئی حدیث بیان نہ کرتا {اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَالْھُدٰی} سے لے کر {الرَّحِیْمُ آیت کا نشان} تک۔ 1 جو لوگ اِخفا کرتے ہیں ان مضامین کا جن کو ہم نے نازل کیا ہے، جو کہ (اپنی ذات میں)واضح ہیں اور (دوسرے کو)ہادی ہیں، بعد اس کے کہ ہم ان کو کتابِ الٰہی (تورات و انجیل) میں عام لوگوں پر ظاہر کرچکے ہوں، ایسے لوگوں پر اﷲ تعالیٰ بھی لعنت فرماتے ہیں اور (دوسرے بہتیرے) لعنت کرنے والے بھی ان پر لعنت بھیجتے ہیں، مگر جو لوگ توبہ کرلیں اور اصلاح کردیں اور (ان مضامین کو) ظاہر کردیں تو ایسے لوگوں پر میں متوجہ ہوجاتا ہوں اور میری تو بکثرت عادت ہے توبہ قبول کرلینا اور مہربانی فرمانا۔2 حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں: لوگ کہتے تھے کہ ابوہریرہ بہت زیادہ حدیثیں بیان کرتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ میں ہر وقت حضورﷺ کے ساتھ رہتا تھاا ور صرف پیٹ بھر کھانے پر گزارہ کرلیتا تھا۔ ان دنوں نہ خمیری روٹی مجھے ملتی تھی اور نہ پہننے کو ریشم، اور نہ خدمت کرنے والا کوئی مرد میرے پاس تھا اور نہ کوئی عورت۔ اور بعض دفعہ میں بھوک کی شدت کی وجہ سے اپنا پیٹ کنکریوں کے ساتھ چمٹا دیتا تھا(تاکہ کنکریوں کی ٹھنڈک سے بھوک کی گرمی میں کمی آجائے)۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ قرآن کی آیت مجھے معلوم ہوتی تھی، لیکن میں کسی آدمی سے کہتا کہ یہ آیت مجھے پڑھا دو تاکہ وہ مجھے اپنے ساتھ گھر لے جائے اور مجھے کچھ کھلادے۔ اور مساکین کے حق میں سب سے بہتر حضرت جعفر بن اَبی طالبؓتھے۔ وہ ہمیں گھر لے جاتے اور جو کچھ گھر میں ہوتا، وہ سب کچھ ہمیں کھلا دیتے یہاں تک کہ بعض دفعہ وہ شہد یا گھی کی کُپّی ہی ہمارے پاس باہر لے آتے۔ اس کُپّی میں کچھ ہوتا نہیں تھا، تو ہم اسے پھاڑ کر اس کے اند ر جو ہوتا اُسے چاٹ لیتے۔ 1علم کی حقیقت اور جس چیز پر علم کا لفظ بولا جاتا ہے حضرت ابو موسیٰؓ فرماتے ہیں: حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: اﷲ تعالیٰ نے مجھے جو ہدایت اور علم دے کر بھیجا ہے اُس کی مثال اُس بارش جیسی ہے جو بہت زیاد ہ ہوئی ہو، اور ایک زمین پر برسی ہو جس کا ایک ٹکڑا بہت عمدہ اور زرخیز تھا۔ اُ س ٹکڑے نے بارش کے پانی کو اپنے اندر جذب کرلیا جس سے گھاس اور چارہ خوب اُگا۔ اس زمین میں ایک بنجر اور سخت ٹکڑا تھا جس نے اس پانی کو روک لیا (نہ اپنے اندر جذب کیا اور ڈھلان نہ ہونے کی وجہ سے نہ اُسے جانے دیا) تو اﷲتعالیٰ نے اس پانی سے لوگوں کو نفع پہنچایا۔ چناںچہ انھوں نے اسے پیا اور اپنے جانوروں کو پلایا اور اس سے کاشت کی۔ اور اس زمین کا تیسرا ٹکڑا چٹیل میدان تھا جس میں پانی بھی (ڈھلان کی وجہ سے) نہ رکا اور گھاس وغیرہ بھی نہ اُگا۔ یہ مثال اُس شخص کی ہے جس نے اﷲکے دین میں سمجھ حاصل کی اور اﷲتعالیٰ نے جو مجھے دے کر بھیجا ہے اس سے اس کو نفع ہوا، اس نے خود سیکھا اور دوسروں کو سکھایا۔ اور اُس آدمی کی مثال ہے جس نے تکبر کی وجہ سے اس علم و ہدایت کی طرف بالکل توجہ نہ کی اور اﷲ کی جو ہدایت دے کر مجھے بھیجا گیا ہے اسے بالکل قبول نہ کیا۔ 2 حضرت ابنِ مسعودؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا: مجھ سے پہلے اﷲ نے جس نبی کو بھی اس کی اُمت میں بھیجا، تو اس اُمت میں